خشت اول چوں نہد معمار کج
تاثُریامی رود دیوار کج
شیخ سعدی شیرازی
قدرت کی کرشمہ سازیوں میں عورت کا عظیم وجود عالم ِا نسانیت کے لئے ایک نعمت غیر مترقبہ ہے ،کائنات کی خوب صورت تصویر میں جس خوب تر رنگ کی کمی تھی اُسے اللہ نے عورت کے وجود کی تخلیق سے پُر کردیا۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ عورت اپنی اہمیت اور عظمت کے اعتبار سے کسی بھی طرح مرد سے کم نہیں۔ اس حوالے سے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں آزادی نسواں، حقوق نسواں جیسے موضوعات/عنوانات پر آج تک اتنا کچھ لکھا دکھایا اور سنایا گیا ہے کہ میرے ناتوان قلم میں اس پر مزید اضافہ کرنے کی سکت نہیں ۔ بہر حال اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اللہ نے دونوں جنسوں کو برابر کا درجہ دیا لیکن ذمہ داریاں ،فرائض اور حقوق مختلف مقرر کئے ہیں تاکہ دنیا میں خاندانی اور معاشرتی نظام بہتر طور پر چل سکے۔ تاہم یہ بات بھی شک وشبہ سے بالاتر ہے کہ عورت حیاتیاتی ،جسمانی اور نفسیاتی اعتبار سے مختلف ہے اور صنفی طور مرد سے محبت، حفاظت، عزت اور قدر ومنزلت کی حقدار ہے ۔اس آفاقی اصول کی تلقین وتاکید آسمانی مذاہب کے صحیفوں میں بھی ملتی ہے۔کہتے ہیں کہ مرد کی کامیابی کے پیچھے عورت کا ہاتھ ہوتا ہے اور اس کی بربادی کا باعث بھی عورت ہی ہوتی ہے۔ عورت مرد کے مقابلے میں زیادہ جذباتی اور حساس واقع ہوئی ہے، پھر یہ چاہے ماں کے روپ میں ہو یابہن ،بیٹی یا بیوی کے شکل میں ،ہر صورت میں اس کی جذباتیت اور حساسیت جلوہ گر ہوتی رہتی ہے ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وہ زندگی کے مختلف مرحلوں پر مرد کے ذہن اور خیالات پر اتنی قابض ہوجاتی ہے کہ مرد کو عورت کی مرضیوں کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا۔ بعض حالات میں عورت مرد کیلئے Driving Force ثابت ہوتی ہے، یہ چاہے تو مرد کو بلندیوں کے راستے پرگامزن کرسکتی ہے (سمجھ دار ہونے کی صور ت میں) اور اس کے علی لرغم بے وقوف اور خود غرض عورت مر د کے لئے پستی اور ذلت کے سامان پیدا کر جاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مرد وعورت اگرچہ رتبے کے اعتبار سے دونوں برابر ہیں تاہم خانگی زندگی میں عورت کا صبرورضا اور اطاعت وفرمانبرداری کا مظاہرہ کر نا معاشر ہ کو صحیح سلامت رکھنے میں بنیادی اہمیت کا حامل ہوتا ہے ۔افسوس جب سے عورت کو نام نہاد بااختیاری کا نشہ پلایا گیا، وہ اپنی اصلیت اور نسوانی صفات اور نزاکتوں سے رشتہ کاٹ گئی ہے ،وہ یہ سمجھنا بھول گئی کہ معاشرے میں اس کو یونہی اہمیت ،عظمت اور حفاظت حاصل نہ تھی لیکن آج نہ تو دنیا کا معاشرتی نظام سلامت رہ سکا ہے اور نہ ہی خاندانی زندگی میں وہ سکون وقرار ہے جو کبھی اس کا گہنہ ہوا کرتا تھا ۔ نتیجہ کہ اس سے فرد بشر کی زندگی کرب، تنہائی اور مایوسی کی کھلی کتاب بن گئی ہے۔
سچ مچ خاندانی اور گھریلو زندگی میں امن وسکون اور آسودگی کی ضامن عورت ہی ہوتی ہے لیکن عورت جب اپنی ذمہ داریوں اور فرائض سے دستبردار ہوگئی تو لازمی طور پر گھرانوں میں انتشار وں ،جھگڑیوں،علحید گیوں اور طلاقوں نے اپنی جگہ لی۔ ہم سب جانتے ہیں کہ عورت اور مرد ایک گاڑی کے دوپہیوں کے مانند ہیں۔ چونکہ ہر فرد کی زندگی، گھر اورسماج کی ترقی یا زوال دونوں میں برابر کی شریک ہوتی ہے، اس لئے دونوں پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی اپنی ذمہ داریوں اور فرائض کو سمجھیں اورا نہیں خوش دلی سے اداکریں تاکہ دنیا جس دورِانحطاط سے گزررہی ہے ،اس سے باہر نکلنے کی صورت پیدا ہوسکے۔
موجودہ دور میں عورت کو سیاست کاروں نے نام نہاد بااختیاری کے زعم باطل میں مبتلا کیاہوا ہے، اس کے نتیجے میں اس کی عزت وعظمت میں کون کون سی کمیاں واقع ہورہی ہیں اس کااندازہ عورت ذات کو نہ بھی ہو مگر جاننے والے جانتے ہیں۔ وہ اپنے دائرہ کار سے تجاوز کر چکی ہے مگر اس خرابی کیلئے صرف عورت کو ہی ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جاسکتا ،اس میں مرد حضرات اپنا بھرپور تعاون پیش کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک باپ اپنی لخت جگربیٹی کو از راہ ِ محبت بلا سوچے سمجھے صرف یہی نہیں کہ کھلا چھوڑ دیتا ہے بلکہ اُسے فیشن پرستی اور گھومنے پھرنے کی آزادی بھی دیتاہے اور آخر پر اپنی بے عزتی کا سر جھکائے تماشہ دیکھنے سے بچ نہیں پاتا ہے۔
لڑکی جب تک غیر منکوحہ ہوتی ہے تو بچپن سے ماں باپ سے ضد کر کے اپنی ہر خواہش پوری کرتی ہے ۔ اس سے اس کی عادتیں بگڑ جاتی ہیں اور آگے چل کر یہی بیٹی جب کسی مرد کی بیوی، کسی گھر کی بہو اور کسی خاندان کی عزت بن جاتی ہے تو نئے گھر انے کو اپنی عادات، خواہشات اور ماحول کے برعکس پاکر زندگی کی تلخ حقیقتوں کے ردعمل میں نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہونا پڑتا ہے ۔ اس مسئلے کاعلاج اپنے طور طریقوں میںبدلاؤ لا نے کی بجائے وہ بات بات پر میکے والوں کا سہار الے کر اپنی خانگی زندگی کو تلخ ترین بناتی ہے ۔اس موقع پر ہم بھول جاتے ہیں کہ اس بیٹی کو ہم نے ہی بچپن اور نوجوانی میں ایسا لاڈپیار ، غلط عادات یا بے ہنگم گھریلو ماحول فراہم کیا جو اس کی شخصیت کے رگ وپے اور فطرت میں ایسے پیوست ہوا کہ شادی کے بعد اس کی ذات سے ان چیزوں کو خارج کرنا نہ صرف ناممکن بنتا ہے بلکہ الٹا ہم لڑکے یا سسرالیوں کو خواہ مخواہ مورِ دالزام ٹھہراکر اپنی تربیت کے نقائص کو بھول جاتے ہیں ۔ یوں اپنی لاڈلی کی غلطیوں اور لغزشوںکو میکے والے تسلیم کرکے اصلاح احوال کے بجائے ان کالے قوانین اور نام نہاد بااختیاری کا سہارالے کر اپنے داماد اور اس کے اہل خانہ کو ظلم وجبر کا بڑے چاؤ سے نشانہ بناتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہماری مائوں، دادیوں اور نانیوں کو سسرال میں نئے لوگوں ،نئے ماحول اور نئے حالات کا سامنا نہیں رہتا تھا؟ مگر تب حال یہ تھا کہ سسرال والوں کو جہیز، گھر یلوتشدد وغیرہ کے الزامات دے کر انہیں جیل نہیں بھیجاجاتا تھا اور نہ ہی وہ پاک سیرت خواتین مسائل دیکھ کرخودکشی جیسی گھناؤنی حرکت کی مرتکب ہوجاتی تھیں۔ دور جدید میںسارے منفی رجحانات ایک ایک کر کے ہماری بہنوں اور بیٹوں میں ٹی وی سیر یلز اور فلموں کی نقالی سے زیادہ تر پنپ جاتے ہیں ۔ انہی ناکارہ حالات کے پس منظر میں نوبت طلاقوںاورجدائیوںتک پہنچ کردوخاندانوں کے بیچ دشمنی اور عنادجنم لیتا ہے ۔اس سے نہ صرف معاشرے میں منافرت پھیلتی ہے بلکہ انتقام گیری کے جذبات کا رحجان بھی چل پڑتا ہے ۔بہ نظر غائر دیکھا جائے تو اس سب کے پیچھے ماں باپ کی غلط تعلیم وتربیت کا رفرماہوتی ہے جس کے برے اثرات پہلے والدین کو مختلف صورتوں میں خود ہی بھگتنا پڑتے ہیں اور بعد میں سسرال والوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔
اس ساری صورت حال کے حوالے سے کشمیر میں ایک عجیب وغریب صورت حال دیکھنے کو ملتی ہے کہ جس کسی سر پھری عورت کو سسرال میں اپنی خواہشات کے علی الرغم ماحول ملتا ہے، وہ کوئی بھی غلط سلط اقدام کر کے مختلف قوانین کا ناجائز استعمال کر کے شوہر کو پابند سلال تک کروا دم دیتی ہے ،ساتھ ہی سسرال والوں کو معاشرے میں بدنامی کا داغ دینے میں بھی کوئی باک محسوس نہیں کر تی۔ حالانکہ کوئی بھی باشعور اور صاحبِ ایمان انسان اُس سسرال کو قطعی عزت و قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھ سکتا جو بہوؤں کو تشدد اور بھید بھاؤ کا نشانہ بناتاہو، جسے بہو کو ستانے میں مزا آتا ہو ، جو انسانیت کے دشمن بن کر اپنی بہوؤں کو طرح طرح کی اذیتیں دیتا ہو۔ ہمارے سماج میںایسی بھی گندی اور غلیظ مثالیں دیکھنے کو ملتی ہیں کہ جہاں سسرال والے کبھی جہیز اور کبھی رسومات بد کے تعلق سے بہوؤں کی زندگیاں جہنم بناتے ہیں ۔ ایسے لوگ سخت ظالم ہی نہیں بلکہ حددرجہ ملامت وسزا کے مستحق ہیں لیکن اسی سماج میں ایسی بھی بہوئیں ہیں جو اپنے سسرالیوں کی ناک میں دم کر تی ہیں ،ان کا جینا دشوار کر تی ہیں ،ان کی بے عزتیاں کروانے کو اپنی فتح وکامرانی سمجھتی ہیں ۔ یہ دونوں طرح کے منفی رویے شیطان کی کارستانیاں ہیں جن سے اللہ کی پناہ مانگنی چاہیے ۔خلاصہ کلام یہ کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم بچپن سے ہی جہاں اپنی بیٹی/ بہن کو ایسی تعلیم وتربیت سے آراستہ کریں کہ وہ بڑی ہوکر نہ صرف میکے والوں کی عزت وقدر کی باعث بنے بلکہ احساس ِ ذمہ داری سے مالامال ہو نے کے سبب سسرال میں بھی ایسی بیوی اور بہوپر فخر کیا جائے ۔اسی سے گھر میں صحت مندرجحان پنپ سکتا ہے ، اسی سے ہماری آنے والی نسلیں صحیح سمت میں پھلتی اور پھول سکتی ہیں اور اسی سے معاشرہ امن وامان کا گہوارہ بن سکتا ہے۔
جس علم کی تاثیر ست زن ہوتی ہے نازن
کہتے ہیں اُسی علم کو ارباب نظر موت
اقبال
(کنٹریکچول) لیکچرار گورنمبٹ ڈگری کالج کپوڑاہ
فون نمبر 9596010884