Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
افسانے

میکا

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: May 23, 2021 1:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
16 Min Read
SHARE
میرے خاندان کے سبھی بڑے بزرگ اور باقی لوگ بڑے پارسا تھے اسی لئے ہمارے خاندان میں حق مہر کم سے کم لکھنے کا رواج اور شادیوں میں جہیزکی بدعت کی نمائش کے بجائے بیٹیوں کو وارثت میں اپنا برابر حصہ دینے کی روایت آج تک زندہ تھی کیو نکہ وہ معاشرے کی کھوکھلے رسموں اور رواجوں وروایتوں کو جڑوں سے کاٹنے والوں میں سے تھے۔ میرے دل میں اپنے میکےکی محبت اور ہمدردی کا احساس خاندان کی دوسری بیٹیوں سے کچھ زیادہ ہی تھا۔ کیوں نہ ہوتا ؟اس بھری دنیا میں ہم صرف دو ہی سگے بھائی بہن تھے۔ ارسلان امی ابو کے علاوہ میرا بھی راج دھلارا بھائی تھا۔ میری شادی کے کچھ سال بعد ہی وہ ایک اچھے عہدے پر فائز ہوا۔ پھر اسکا نکاح میری ہی پسند کی ایک لڑکی یعنی میری ایک سہیلی کی چھوٹی بہن فرحت کے ساتھ ہوا۔ ارسلان فرمانبردار بیٹا اور اچھا بھائی پہلے سے تھا۔ گھریلو مزاج اور عزت سے پیش آنے والی بھابی ملی تو میں بھی سسرال میں میٹھی نیند سونے لگی۔ یہ بات سچ ہے کہ جب میکا اچھا بھلا ہو تو بیٹیاں بھی اپنے گھروں میں سکون سے رہتی ہیں ۔
میرا ہم سفر راشد بھی اپنے ماں باپ کا اکلوتا چہیتا بیٹا تھا جو شادی سے پہلے ہی اپنے گھر سے بہت دور ایک فیکٹری میں ملازمت کرتا تھا۔ سال میں ایک بار ایک مہینے کی چھٹی پر گھر آیا کرتا تھا ۔ جب تک اُسکے والدین حیات تھے میں انہی کے ساتھ گھر پر رہا کر تی تھی ۔ انکے انتقال کے بعد راشد نے بڑا آدمی بننے کے چکر میں بلا سوچے سمجھے گھر سمیت اپنی ساری وراثت بیچ کر شہر میں اپنا کاروبار شروع کیا، پھر مجھے اور بچوں کو وہیں بلایا۔رب کائنات نے تین بیٹیوں سے نوزا تھا۔ کاروبار کے ابتدائی مراحل چل رہے تھے ۔ فلیٹ کا کرایہ، بچوں کی پرورش، انکا ایڈمشن تعلیمی اور گھر کے باقی اخراجات پورے کرتے کرتے پیسہ اور وقت سوکھی ریت کی طرح ہاتھوں سے پھسلتا گیا۔ بڑی مدت کے بعد جب آج ایک ڈیڑھ مہینے کی چھٹی گزارنے فیملی  سمیت میکے آئی تو ائرپورٹ پر ہی فرحت اور ارسلان کو کھڑا پایا۔ انہوں نے پھولوں کی مالہ پہنا کر ہمارا استقبال کیا۔ بڑی عزت اور محبت سے گھر پہنچایا۔ اپنوں کو دیکھ کر میری آنکھیں نم ہوگئیں کیونکہ میں نے بھی تو اپنے میکےسے دور رہ کر اپنا سارا وقت ایک قیدی پرندے کی طرح گزارا تھا کیونکہ سیانے کہتے ہیں کہ عورت کی روح اور جان اپنے میکے میں مرتے دم تک بستی ہے ۔
ایک دن فرحت اور ارسلان گھر پر نہ تھے، باتوں باتوں میں امی نے ابا کے سامنے مجھے بتایا کہ راشد نے اپنی وراثت کھوٹے سکوں میں بیچ کر بہت غلط کیا اور آج تک اپنا گھر بنانا بھی نصیب نہ ہوا۔ خیر اس نے جو کیا اور جیسا بھی ہے تمہارا حال اور مستقبل اسی سے تو جڑا ہے مگر تم کبھی جذبات میں آکر کوئی غلط فیصلہ نہ کرنا۔ جذبات میں فیصلے کرنے والے لوگ اکثر آنے والے وقت میں بڑے کمزور، مجبور اور محتاج ہوجاتے ہیں ۔اس لئے تم اپنے میکے کی وراثت کو عمر بھر سنبھال کے رکھنا کیونکہ خدا پر بھروسہ رکھنے کےعلاوہ زندگی میں آنے والے مشکل حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے وقت کی محنت، قناعت، وراثت کی دولت ، صحیح سوچ اور صحیح وقت کے صحیح فیصلے ہی درکار آتے ہیں ۔ امی نے یہ بھی بتایا کہ رشتوں سے ہمدردی اور محبت ہونی چاہیے لیکن رشتوں پر زیادہ بھروسہ بھی نہیں کرنا چاہیے کیونکہ سیانے کہتے ہیں کہ رشتے بالکل موسموں کی طرح بدل جاتے ہیں۔جب یہ رشتے بدل جاتے ہیں تو بڑی تکلیف پہنچتی ہے۔امی نے یہ بھی بتایا کہ تمہاری بھابی فرحت کو شیشے میں اُتارنا آتا ہے۔ اس نے شروع سے ارسلان کو اپنا غلام بنایا ہے ۔وہ اسکے اشاروں پر پہلے سے  ناچتا ہے اور وہ خود پورے گھر پر حکمرانی کر رہی ہے۔ امی نے تو مجھے ہمدردی سے سمجھایا مگر میں نے امی کی باتوں پہ زیادہ دھیان نہیں دیا کیونکہ میں ارسلان سے زیادہ فرحت سے محبت کرتی تھی کیوں کہ ارسلان سے زیادہ فرحت کو میری ہمدردی تھی۔ انہوں نے بڑی محبت سے ہمارا خیال رکھا۔ ہمارا ہی کیوں فرحت تو اپنی ماں کی طرح امی کا بھی خیال رکھ رہی تھی ۔ بڑے نرم اور میٹھے لہجے میں امی کے ساتھ برتاؤ کررہی تھی۔ ماں اندر آیئے باہر زیادہ دھوپ ہے، ماں یہ مت کھائو یہ کھائو یہ صحت کے لیے ٹھیک ہے ۔ وقت پر کھانے پینے، صحت صفائی،  وقت پر دوائیوں کی پابندی، غرض ایک بیٹی سے بڑھکر امی کا خیال رکھ رہی تھی ۔ اس کا طریقہ اور سلیقہ دیکھ کر میں بڑی متاثر ہوئی اسلئے میں نے امی کو سمجھایا کہ بلا وجہ بہو کے بارے میں غلط سوچنا غلط بات ہے ۔
چھٹیاں ختم ہونے لگیں تو ہم واپس جانے کی تیاری کرنے لگے۔ اپنے ننیہال والوں سے مل کر میرے بچے خوش نظر آرہے تھے۔ ارسلان اور فرحت نے راشد اور میری مہمان داری اور بچوں کے لاڑ اُٹھانے میں کوئی کمی نہ رکھی۔ جاتے وقت انہوں نے میرے لئے قیمتی جوڑا، چوڑیاں، چپل اور بچوں کے لیے کپڑے، چاکلیٹ اور راشد کے لیے مہنگے مہنگے کئی تحفے پیش کر کے جلد آنے کی تاکید کی۔ گاڑی میں سوار ہونے سے پہلے ابا نے ایک چھوٹا بیگ میرے بیگ میں رکھ کر میرے سر پر ہاتھ رکھ کر رخصت کیا۔ بڑا یادگار اور اچھا وقت گزرا۔
گھر پہنچ کر میں نے ابا کے دیئے ہوئے بیگ کو کھولا تو اس میں میرے نام میرے حصے کی وراثت کے کاغذات تھے اور ایک اچھی خاصی رقم رکھی ہوئی تھی ۔
میرا آنے والا وقت بڑا مصروف گزرا، بچوں کی بڑی کلاسیں اور انکا پرائیویٹ ٹیوشن اور راشد بھی لگاتار اپنے کاروبار کےاتار چڑھاؤ کو صحیح ڈگر پر لانے کی تگ دو میں لگا رہا۔ 
اگلے پانچ سالوں میں ابا اور امی کا انتقال ہوا۔ میں انکی موت پر اکیلے مختصر وقت کے لئے آکر واپس چلی جاتی تھی کیوں کہ میری بھی تو کچھ اپنی مجبوریاں تھیں لیکن فرحت ہر ہفتے فون کرکے مجھے بچوں سمیت آنے کی دعوت دیتی رہتی اور اکثر آہ بھر کے کہتی تھی کہ کتنے خوش نصیب ہوتے ہیں وہ میکے والے جن کی بیٹیاں میکے آتی رہتی ہیں۔  کیوں کہ شادی ہونے تو بیٹیاں ہی اپنے میکے کو اپنے خون سے سینچتی ہیں، سجاتی سنوارتی ہیں مگر سیانے کہتے ہیں کہ اگر بیٹیاں کسی بھی وجہ سے میکے کا راستہ بھول جائیں تو میکےوالے بھی اسے بھولنے میں دیر نہیں کرتے۔ مگر میں ہمیشہ اپنی مجبوریوں کی وجہ سے بہانے بنا بنا کر ٹالتی رہی۔ 
ایک دن راشد نے مجھ سے کہا کہ کیا واقعی تمہارا وہاں آنے جانے کا من نہیں کرتا؟ مجھے ایسے لگتا ہے کہ جیسے تم اپنے والدین کی موت کے بعد بالکل بدل چکی ہو۔ ایسےرشتے تو نصیب والوں کو ملتے ہیں۔ ایک بات تم سے کہہ دینا چاہتا ہوں۔ ہاں کہہ دو میں نے بھی بات اگے بڑھاتے ہوئے راشد سے کہا۔ تم نے اپنے حصے کے کاغذات اپنے پاس رکھ کر خود کو لالچی بہنوں کی فہرست میں  کھڑا کردیا ۔ یہ میری نظروں میں بالکل بھی ٹھیک نہیں۔ بھائی بہن کے درمیان پیار، محبت اور مان ہو تو اس سے بڑی دولت دنیا میں کوئی ہی نہیں سکتی۔ کچھ رشتے دنیا میں بہت انمول ہوتے ہیں جنکے لیے چھوٹی بڑی قربانیاں دینا انسان کا فرض بنتا ہے۔ اگلی بار جب تم بھائی کے یہاں جاو گی تو یہ کاغذات انکے قدموں میں رکھ دینا۔ یہ میری نظر میں ٹھیک رہے گا۔ میں نے بھی راشد کی ہاں میں ہاں ملادی کیوں کہ مجھے بھی کہیں نہ کہیں اندر سے اپنے بھائی کا شریک  بننا اچھا نہ لگ رہا تھا۔ میں نے اپنے رب کا شکر ادا کیا جس نے مجھے دولت مند نہ سہی مگر بے لالچ اور ہمدرد ہم سفر عطا کیا ہے ورنہ آج کے دور میں لالچی مرد اپنی بیویوں کو زندہ جلانے میں کوئی عار نہیں سمجھتے ہیں۔ راشد کے کہنے پر ایک بار میں کچھ وقت نکال کر اسی غرض سے میکے چلی گئی۔ پھر خلوص کے ساتھ اپنے حصے کے کاغذات ارسلان کے نام کرکے واپس چلی آئی۔
وقت کے ساتھ ساتھ فرحت کے فون کا سلسلہ بھی کم ہوتا گیا۔ ساتھ ساتھ وقت کا جھرنا بھی بہتا رہا۔ بچے اسکولوں سے نکل کر کالجوں میں آگئے لیکن راشد کے کاروبار میں ذرا بھر بھی ترقی نہ ہوئی۔ شکر ہے گھر کے خرچے اور عزت کی روٹی میسر تھی۔
اس دوران پوری دنیا میں ایک ہنگامے کے ساتھ ساتھ کووڈ کی پہلی لہرکا حملہ ہوا ہر طرف مرحلے وار لاک ڈاون کا سلسلہ شروع ہونے لگا جس وجہ سے ہمارا کاروبار بری طرح متاثر ہوا۔ زندگی میں پہلی بار ایسا ہوا کہ گھر کے حالات الجھنے لگے۔ راشد نے مجھے بتایا کہ حالات ٹھیک ہونے تک تم بچوں کو لے کر اپنے بھائی کے گھر چلی جائو۔ راشد کو اکیلا چھوڑ کر میں کہیں نہیں جانا چاہتی تھی مگر اس نے سمجھایا کہ تمہیں تو میکے جانے کا اچھا موقع مل رہا ہے اسے گنوانا ٹھیک نہیں کیوں کہ میں پچھلے چار پانچ سالوں سے وہاں گئی نہیں تھی۔ جاتے وقت راشد نے مجھے سے وعدہ لیا کہ فرصت سے جارہی ہو اسلئے وہاں ان سے اپنی خدمت نہ کروانا بلکہ اپنا کام خود کرنا، اپنے خرچے بھی خود اٹھانا۔ کچھ نقدی میرے ہاتھ پر رکھ کر خود وہیں اکیلے ایک دوست کے گھر رک گیا۔ اپنوں سے ملنے کی بے قراری بڑھتی گئی اسلئے جلد پہنچنا چاہتی تھی لیکن آج ہمارے لئے ائیر پورٹ پر کوئی کھڑا نہ تھا۔ دل میں ایک درد کی لہر اٹھ گئی مگر جلد ہی سمجھ گئی کہ کووڑ کی وجہ سے تو گھر سے نکلنا موت کو دعوت دینے کے برابر ہے۔
کووڑ کے لوازمات پورے کرکے جب میں میکے پہنچی تو ایسے محسوس ہوا کہ میرے پائوں تلے زمین نکل گئی کیوں کہ ارسلان نے ابا کا گھر زمین سمیت بیچ کر بغل والی زمین فرحت کے نام خرید کر نیا بنگلہ تعمیرکراکے خود اپنے اختیار سے دست بردار ہوچکا ہے۔ اس نئی تعمیر میں امی ابا کی یادوں اور میرے اختیار کا کوئی واسطہ نہ تھا۔ خیر یہ نیا بنگلہ تو میرا میکا ہے۔ اس میں رہنے والے تو میرے میکے  والے ہیں۔ جگہ بدلنے سے میکا تھوڑی بدل جاتا ہے ۔ یہ سوچ کر خود کو دلاسہ دیا، اس لئے آتے ہی خود کو گھر کے کاموں میں الجھادیا مگر اس بار اس گھر کا ماحول کچھ ٹھیک نہ لگا کیوں کہ فرحت کے رنگ ڈھنگ اور تیور بالکل بدل چکے تھے۔ پہلی اتوار کی دوپہر کھانا کھانے کے بعد نماز ادا کرکےمیں کمرے میں جاکے سوگئی۔ کچھ ہی دیر بعد پیاس کا احساس ہوا تو میری نیند کھل گئی۔ میں کچن میں پانی پینے چلی گئی تو ارسلان کے کمرے سے جھگڑنے کی آوازیں آرہی تھیں۔آپ کی بہن سے زیادہ چالاک تو آپ کا بہنوئی ہے، جس نے اپنی بیوی اور بیٹیوں کا بوجھ ہم پر ڈال دیا اور خود بےفکر ہو کر آرام سے بیٹھ گیا ۔ فرحت خدارا آہستہ سے بات کرو اور وہ دن یاد کرو جب آپا  نے کچھ سال پہلے ہی اپنی لاکھوں کی زمین میرے نام کردی جو یہ بنگلہ تعمیر کرنے سے پہلے میں کروڑوں میں بیچ چکا ہوں ۔ یہ لوگ تھوڑی نہ یہاں رہنے آئے ہیں۔ اگر آپا نے تمہاری باتیں سن لیں تواسکا دل ٹوٹ جائے گا ۔تووہ روٹھ کرکہاں جائے گی اور تمہیں یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ اسکا اس شہر میں کوئی اپنا ٹھکانا بھی نہیںہے ۔ اس وبا میں بڑی بڑی بیٹیوں کو لےکر کہاں  جائے گی۔ تم تھوڑا صبر کر لو کچھ ہی وقت کی تو بات ہے۔ ارسلان آہستہ اور ڈر ڈر کے فرحت کو سمجھارہا تھا۔ کیا آپ چاہتے ہو کہ میں  اپنی جان دوں ۔یا یہ گھر آپکی بہن اور اسکے بچوں کے حوالے کرکے خود انکی نوکر نوکرانی بن جاوں؟فرحت نے چلاتے ہوئے کہا۔کی باتیں میرے ذہن میں گردش کرنے لگیں، واقعی رشتے موسموں کی طرح بدل جاتے ہیں۔ جب بدل جاتے ہیں تو بڑی تکلیف ملتی ہے۔ اسی وقت میرے کمرے سے فون کی گھنٹی بج اٹھی۔ میری سانسیں پھول گئیں  میں دبے پاوں کمرے میں پہنچی اور فون  اٹھایا دوسری طرف راشد سب کا حال احوال پوچھ رہے تھے۔ میرا دل چیخ چیخ کر رونے کو چاہ رہا تھا مگر خود کو سنبھال کر صرف اتنا کہہ سکی کہ کووڈ کا زور ختم ہوتے ہی ہم واپس آرہیں ہیں۔
���
پہلگام اننت ناگ موبائل نمبر؛9419038028
 
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

شدید گرمی میں سیاحوں کی پناہ گاہ بنادرہال علاقہ کا ’کھوڑ ناڑ آبشار‘ دور افتادہ گاؤں میں واقع قدرتی آبشار کوسیاحتی نقشے پر لانے کی مانگ،ڈی سی کی یقین دہانی
پیر پنچال
مغل شاہراہ پرپیر کی گلی سیاحوں کی توجہ کا مرکز بن گئی روزانہ سینکڑوں کی تعداد میں لوگوں کی آمد ،بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی کا الزام
پیر پنچال
راجوری کالج کے طلباء کاجموں یونیورسٹی انتظامیہ کے خلاف احتجاج جاری سرکلر اور اساتذہ کی کمی پر برہمی، سڑک بند کر کے احتجاج، یقین دہانی پر مظاہرہ ختم
پیر پنچال
جرنلسٹ ایسوسی ایشن اور پریس کلب پونچھ کا مشترکہ اجلاس
پیر پنچال

Related

ادب نامافسانے

قربانی کہانی

June 14, 2025
ادب نامافسانے

آخری تمنا افسانہ

June 14, 2025
ادب نامافسانے

قربانی کے بعد افسانہ

June 14, 2025
ادب نامافسانے

افواہوں کا سناٹا افسانہ

June 14, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?