والدین و سیول سوسائٹی کاہسپتال عملہ پر لاپرواہی کا الزام، تحقیقات کی مانگ
اشتیاق ملک
ڈوڈہ//گورنمنٹ میڈیکل کالج ڈوڈہ میں ایک دل دہلا دینے والا واقعہ سامنے آیا ہے جس میں 11سالہ سانیہ دختر شبیر احمد میر، ساکنہ ٹانٹہ بھلیسہ ،ایک پیچیدہ سرجری کے دوران زندگی کی بازی ہار گئی۔ہسپتال انتظامیہ کے مطابق سانیہ کو ہسپتال میں ہائیڈیٹڈ سسٹ کی شکایت کے باعث داخل کیا گیا تھا، تاہم، سرجری کے دوران اس کی حالت سنگین ہوگئی اور وہ بعد از آپریشن کوما میں چلی گئی۔ اس پیچیدہ سرجری کے بعد سانیہ کی حالت بگڑ گئی، جس کے باعث ڈاکٹروں نے فوراً اسے سکمز صورہ ہسپتال منتقل کیا۔ لیکن بدقسمتی سے، وہ جانبر نہ ہو سکی اور اس کی موت واقع ہو گئی۔سانیہ کی موت نے پورے ڈوڈہ میں غم و غصے کی لہر دوڑادی ہے۔ اس معاملے میں سانیہ کے والدین نے جی ایم سی ڈوڈہ کے ڈاکٹروں پر سخت الزامات عائد کیے ہیں، جن کا کہنا ہے کہ ڈاکٹروں نے اپنی غیر تجربہ کاری کی بنا پر پیچیدہ سرجری کی کوشش کی، جو نہ صرف سانیہ کی زندگی کے لیے خطرناک ثابت ہوئی بلکہ ہسپتال کی محدود سہولتیں بھی اس سرجری کے لیے ناکافی تھیں۔ سانیہ کے والد شبیر احمد میر نے کہا کہ “ہم نے ڈاکٹروں پر مکمل بھروسہ کیا تھا، لیکن ان کی غفلت کی قیمت ہماری بیٹی کی جان سے ادا ہوئی۔ اس سرجری کے دوران جو کچھ بھی ہوا، وہ صرف ان کی لاپرواہی اور کم تجربے کا نتیجہ ہے۔ جب اسپتال میں ضروری وسائل اور ڈاکٹروں کی تربیت کا فقدان تھا، تو کیوں اتنی پیچیدہ اور خطرناک سرجری کی اجازت دی گئی؟‘‘۔ عوامی حلقوں میں یہ سوالات زور پکڑ گئے ہیں کہ ہسپتالوں میں موجود عملہ اور وسائل کے حوالے سے درست فیصلہ کیا گیا یا نہیں۔سانیہ کی موت کے بعد ڈوڈہ کے عوام میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی ہے، اور مقامی افراد نے جی ایم سی ڈوڈہ کی انتظامیہ پر شدید تنقید کی ہے۔ ایک مقامی شہری نے کہا “یہ صرف سانیہ کا مسئلہ نہیں، بلکہ ہمارے شہر کے ہر شہری کا ہے۔ یہاں کے ہسپتالوں میں مریضوں کی زندگیوں کے ساتھ کھلواڑ کیا جا رہا ہے۔ اگر ڈاکٹروں کو اپنی مہارت پر بھروسہ نہیں تھا، تو انہیں اس سرجری کی اجازت کیوں دی گئی؟”۔مقامی افراد کا کہنا ہے کہ جی ایم سی ڈوڈہ میں علاج کی سہولتوں کی کمی اور ڈاکٹروں کی تربیت میں واضح فرق ہے، جس کے باعث مریضوں کو اکثر غیر ضروری مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس سے نہ صرف ڈاکٹروں کی مہارت پر سوالات اٹھتے ہیں بلکہ اسپتال کی انتظامیہ اور حکام کی ذمہ داری پر بھی سوالیہ نشان لگتا ہے۔سانیہ کے والدین نے سانیہ کی موت کے حوالے سے ایف آئی آر درج کرنے اور ایک آزاد عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے تاکہ اس سنگین واقعہ کے اصل حقائق سامنے آ سکیں۔ انہوں نے کہا “ہم انصاف کے لیے لڑیں گے اور اس واقعے میں ملوث افراد کو قانون کے کٹہرے میں لایا جانا چاہیے تاکہ آنے والے وقت میں اس قسم کے واقعات پیش نہ آئیں، سانیہ کے والدین کی آواز میں عوام کی حمایت بھی شامل ہے، جنہوں نے حکومت اور مقامی انتظامیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ اس واقعے کی غیر جانبدار تحقیقات کرائی جائیں تاکہ حقیقت سامنے آئے اور جو بھی اس کی ذمہ داری کا حامل ہوں۔لوگوں نے انتظامیہ و حکومت سے جی ایم سی ڈوڈہ اور دیگر مقامی اسپتالوں میں ڈاکٹروں کی تربیت کا معیار بہتر کیا جائے تاکہ وہ پیچیدہ سرجریوں جیسے معاملات میں ماہر ہوں۔ ہسپتالوں میں ضروری آلات، ماہر ڈاکٹروں اور دیگر سہولتوں کی فراہمی کے لیے اقدامات کیے جائیں تاکہ مریضوں کو اعلیٰ معیار کی طبی دیکھ بھال مل سکے۔غفلت میں ملوث افراد کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے تاکہ ایسی غفلت دوبارہ نہ ہو اور اسپتالوں میں علاج کے دوران مریضوں کی زندگیوں سے نہ کھیلا جائے۔اس واقعے کی غیر جانبدار تحقیقات کرائی جائیں تاکہ حقیقت سامنے آئے اور جو بھی اس کی ذمہ داری کا حامل ہو، اس کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ یہ پہلا موقع نہیں جب جی ایم سی ڈوڈہ کے بارے میں سوالات اٹھائے گئے ہوں۔ ماضی میں بھی یہاں کے ڈاکٹروں اور طبی سہولتوں پر متعدد شکایات سامنے آئی ہیں، جن میں مریضوں کو علاج میں تاخیر، غیر ضروری مشکلات کا سامنا اور کم وسائل کے باعث مناسب علاج کی فراہمی میں ناکامی شامل ہے۔ اس سے صحت کے نظام پر عوام کا اعتماد متزلزل ہو چکا ہے، اور سانیہ کی موت کے بعد ایک بار پھر عوام نے اس نظام میں تبدیلی کا مطالبہ کیا ہے۔اور ایک بار پھر جی ایم سی ڈوڈہ سرخیوں میں آرہی ہے۔
جی ایم سی ڈوڈہ کا وضاحتی بیان
عظمیٰ نیوزسروس
ڈوڈہ//ڈوڈہ ضلع کی تحصیل کاہرہ کے ٹانٹا گاؤں سے تعلق رکھنے والی گیارہ سالہ لڑکی کی سرجری کے بعد موت واقع ہونے پر جی ایم سی انتظامیہ ڈوڈہ نے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں انہوں نے کہا ڈاکٹروں کی ماہر ٹیم نے گیارہ سالہ لڑکی کامیاب سرجری کی تاہم بعد میں اس کی حالت بگڑ گئی اور موقت واقع ہو گئی۔ بیان میں کے مطابق جی ایم سی ڈوڈہ میں داخل 11سالہ بچی، جو جگر کے ایک بڑے ہائیڈیٹڈ سسٹ (Hydatid Cyst) کے علاج کے لیے زیرِ نگرانی تھی، ایک بدقسمت واقعے کا شکار ہو گئی۔ مریضہ کا لیپروسکوپک سرجیکل طریقہ کار جنرل اینستھیزیا کے تحت، اس کے والد سے مکمل طور پر باخبر ہائی رسک رضامندی حاصل کرنے کے بعد، کامیابی سے انجام دیا گیا۔ ہماری سرجیکل ٹیم نے یہ آپریشن کامیابی سے مکمل کیا، اور دوران آپریشن کوئی غیر متوقع واقعہ پیش نہیں آیا۔ بڑا سسٹ بغیر کسی فوری پیچیدگی کے ہٹا دیا گیا۔یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ جگر کے ہائیڈیٹڈ سسٹس سے سرجری کے دوران اور بعد میں ممکنہ طور پر سنگین اور جان لیوا پیچیدگیاں منسلک ہو سکتی ہیں۔ ان میں اینافیلیکسس (Anaphylaxis)، ملٹی آرگن فیلیر (Multi-organ Failure)، اور اچانک قلبی ڈھیر (Sudden Cardiovascular Collapse) شامل ہیں یہاں تک کہ جب سرجیکل طریقہ کار بظاہر کامیاب دکھائی دے۔ آپریشن کے بعد، مریضہ کو گردوں کے اچانک فیل ہونے (Acute Renal Shutdown) کا ایک غیر واضح واقعہ پیش آیا۔ اس صورتحال کے بعدسکمز سری نگر کی انٹینسیو کیئر یونٹ اور جنرل سرجری ٹیموں سے مشاورت کی گئی۔ علاج کرنے والے معالجین، اینستھیزیا کے ماہرین، اور سرجیکل ٹیم کے درمیان ماہرانہ رائے اور اتفاق رائے کی بنیاد پر، مریضہ کو سکمز میں اعلیٰ انتظام کے لیے انتہائی نگہداشت اور نیفرالوجی کی نگرانی میں منتقل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ والد کو مریضہ کی تشویشناک حالت کے بارے میں مکمل طور پر آگاہ کیا گیا تھا، اور منتقلی کا فیصلہ ان کی موجودگی میں کیا گیا۔ مریضہ کو ایڈوانسڈ لائف سپورٹ ایمبولینس میں منتقل کیا گیا۔ بدقسمتی سے، منتقلی کے دوران، مریضہ کو اچانک دل کا دورہ پڑا اور اسے دوبارہ زندہ نہ کیا جا سکا۔جی ایم سی ڈوڈہ کی پوری ٹیم اس المناک انجام پر گہرے دکھ کا اظہار کرتی ہے،ہم سوگوار خاندان سے اس انتہائی دکھ کی گھڑی میں دلی تعزیت کا اظہار کرتے ہیں، ہم یہ بھی واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ہم اس واقعے سے متعلق تمام حقائق کی تحقیقات یا انکوائری کے لیے مکمل طور پر تیار ہیں،جی ایم سی ڈوڈہ شفافیت، احتساب اور مریضوں کی دیکھ بھال کے اعلیٰ ترین معیار کو برقرار رکھنے کے لیے پرعزم ہے۔