فیاض بخاری
بارہمولہ// ضلع ہسپتال بارہ مولہ کو اگرچہ میڈیکل کالج کادرجہ ملے کئی سال ہوگئے لیکن یہاں مریضوں کی دیکھ بھال میں مبینہ طور کوتاہیاں ہورہی ہیں۔ہسپتال میں طبی اور نیم طبی عملے اور ادویات کی کمی کی وجہ سے مریض دردرکی ٹھوکریں کھارہے ہیں۔ ایمرجنسی مریضوں کوناتجربہ کاروں کے ہاتھوں دیاجاتا ہے اور اس طرح انہیں صحیح علاج نہیں مل پارہا ہے ۔گورنمنٹ میڈیکل کالج بارہمولہ میں روزانہ تین اضلاع کپوارہ،بانڈی پورہ اور بارہمولہ سے سینکڑوں مریض علاج کیلئے آتے ہیں ، تاہم بیشتر مریضوں اور تیماداروں کا کہنا ہے کہ جس طرح سے جی ایم سی میں علاج ملنا چاہئے ،انہیں وہ علاج نہیں مل رہا ہے ۔ ہسپتال جس کا مطلب صحت عامہ کی نگہداشت کا مرکز ہے، اپنے ٹوٹے ہوئے ایمرجنسی رسپانس سسٹم اور خطرناک حد تک غیر حاضر قیادت کے ڈھانچے کی وجہ سے تنقید کی زد میں ہے۔ کپوارہ کے عبدالمجید نامی ایک تیمادار نے کہا کہ ایمرجنسی مریض ناتجربہ کاروں کے ہاتھ میں رہ گئے۔سب سے سنگین مسائل میں سے ایک جونیئر ریذیڈنٹ ڈاکٹروں کے ذریعے ہنگامی مریضوں کا علاج کیا جارہا ہے ۔ تازہ گریجویٹس کو جو کہ بہترین ارادوں کے باوجود، تیز باخبر فیصلے کرنے کے لیے درکار طبی مہارت سے محروم ہیں، مریضوں کو اکثر مناسب ابتدائی تشخیص کے بغیر طبی ٹیسٹوں کا آرڈر دیتے ہیں۔ معلوام ہوا ہے کہ یہ ٹیسٹ اکثر غلط نتائج دیتے ہیں، جو مریضوں کو بروقت، جان بچانے والی مداخلت حاصل کرنے کے بجائے بار بار تفتیش کے چکروں میں الجھا دیتے ہیں۔ مریضوں کا کہنا ہے کہ سینئر ڈاکٹرز اپنی پوسٹوں سے غائب رہتے ہیں ، طبی آپریشنز کے سینئر کنسلٹنٹس، پروفیسرز، اور ماہرین کی عدم موجودگی احتساب میں ایک نظامی خرابی واضح مثال ہے۔ مریضوں کی دیکھ بھال کے ذمہ دار ہونے کے باوجود، بہت سے لوگ مبینہ طور پر پرائیویٹ پریکٹس یا فارماسیوٹیکل نمائندوں کے ساتھ نیٹ ورکنگ میں مصروف ہیں۔ اوڑی کے ایک اور مریض سجاد احمد نے بتایا کہ ہسپتال میں ادویات کی بھی کافی کمی پائی جاتی ہے اور سرجری مریضوں کیلئے یہاں سامان دستیاب نہیں ہوتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ بدقسمتی کی بات یہ ہے مریضوں کو وکرال، این ایس ، آریل ، سلک، نیڈل اور گلوسز جیسا سامنا بازار سے ہزاروں روپے دیکر خریدنا پڑ تا ہے۔ اس کے علاوہ ہسپتال میں ادویات بھی دستیاب نہیں ہیں،تو یہ کون سا جی ایم سی ہے ؟لوگوں کے مطابق جی ایم سی بننے کے بعد ہسپتال میں کافی ڈاکٹر اور دیگر طبی عملہ بھاری تعداد میں ہونا چاہئے تاہم گزشتہ کئی برسوں سے اس ہسپتال سے متعدد ڈاکٹر اور دیگر عملہ نوکری سے سبکدوش ہوئے اور ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ ناہی اُن خالی جگہوں کو پر کیا گیا ہے اور نا ہی نئے ڈاکٹروں ، پیرا میڈیکل اسٹاف اور دیگر طبی عملے کوبھرتی کیا گیا ہے جس کا خمیازہ مریضوں اور تیماداروں کو بھگتنا پڑ رہا ہے ۔اس بارے میں اس نمائندے نے ہسپتال سپرانٹنڈنٹ اور میڈیکل کالج کے پرنسپل سے رابطہ کرنے کی کوشش کی ،لیکن ان سے رابطہ نہ ہوسکا۔