سرینگر//جموں و کشمیر میڈیکل سپلائز کارپوریشن وادی میں کام کرنے والے اسپتالوں کو معیاری اورمتواتر ادویات فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے جسکا خمیازہ اسپتالوں میں علاج و معالجے کیلئے آنے والے غریب مریضوں کو اٹھانا پڑرہاہے۔وادی کے بیشتر اسپتالوں بون اینڈ جوائنٹ برزلہ، جواہر لال نہرو میموریل رعناواری، جی بی پنتھ سونہ واراوردیگر اسپتالوں میں ادویات اور تشخیصی ٹیسٹ کیلئے درکار Reagentsکی عدم دستیابی کی وجہ سے مریضوں کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہاہے ۔بیشتراسپتالوں کے منتظمین کا کہنا ہے کہ ریاستی سرکارکی سخت ہدایت کی وجہ سے وہ مریضوں کیلئے ادویات، تشخیصی ٹیسٹوں کیلئے Reagentکو بازار سے نہیں خرید سکتے ہیں۔سال 2013میں جی بی پنتھ اسپتال میں غیر معیاری ادویات فراہم کرنے کے سنسنی خیز سکینڈل سامنے آنے کے بعد ریاست میں کام کرنے والے سرکاری اسپتالوں کو متواتر طور اور معیاری ادویات فراہم کرنے کیلئے میڈیکل سپلائز کارپوریشن بنائی گئی تاہم یہ ادارہ اسپتالوں کو متواتر طور پر ادویات اور دیگر سازو سامان فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے اور بیشتر اسپتالوں میں مریضوں کو علاج و معالجے کیلئے درکار بنیادی چیزیں بھی بازار سے خریدنی پڑتی ہیں۔سرینگر کے بون اینڈ جوائنٹ اسپتال اور جواہر لال نہرو رعناواری میں کئی اہم ادویات اور تشخیصی ٹیسٹ کیلئے کام آنے والے Reagentsکیلئے مریضوں کے ضروری ٹیسٹ رہ گئے ہیں ۔ شمیمہ نامی خاتون نے بتایا ’’ دو ماہ قبل اسپتال میںThyriod test کیلئے فیس جمع کی گئی تاہم دو ماہ کا وقت گزر گیا تاابھی بھی اسپتال میں مذکورہ ٹیسٹ کیلئے کام آنے والی دوائی کا کہیں کوئی نام و نشان موجود نہیں ہے۔ شمیمہ نے بتایا کہ دو ماہ کئی چکر لگا چکی ہوں مگر اسپتال انتظامیہ کے پاس اگلی تاریخ کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ محکمہ طبی تعلیم کے ایک اعلیٰ افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ’’کارپوریشن متواتر طور پر ادویات فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے جس کی وجہ سے اسپتالوں میں ادویات کی کمی واقع ہوتی ہے‘‘۔ مذکورہ افسر نے بتایا کہ ہمیں ایچ ڈی ایف کو بھی استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہوتی اسلئے ہر اسپتال میں کسی نہ کسی چیز کی کمی ہے۔ مذکورہ افسر نے بتایا ’’ میڈیکل سپلائی کارپوریشن تبھی کامیاب ہوتی جب اسپتالوں کو متواتر طور پر معیاری ادویات فراہم ہو مگر ایسا کچھ بھی نہیں اور نہ ہی ریاستی حکومت اسپتالوں کے منتظمین کو ایچ ڈی ایف استعمال کرنے کی اجازت دیتی ہے۔ مذکورہ افسر نے بتایا کہ زبانی طور تو وزراء بہت کچھ کہتے ہیں مگر جب عملانے کی بات ہوتی ہے تو معمولی سی چیز کیلئے متعلقہ محکمہ سے اجازت طلب کرنی پڑتی ہے جس کی وجہ سے کئی اسپتالوں میں اہم ادویات کی سپلائی ممکن نہیں ہوپاتی ہے۔ محکمہ صحت کے ڈائریکٹر ڈاکٹر سلیم الرحمن نے بتایا ’’ 80فیصد ادویات تو متواتر طور پر فراہم ہوتی ہیں اور کچھ 20فیصد ادویات میں تاخیر ہورہی ہے۔ ‘‘ واضح رہے کہ اس سے قبل وزیر مملکت برائے صحت آسیہ نقاش نے میڈیکل سپلائی کارپوریشن کو تمام ادویات مقرر وقت پر دینے کی سخت ہدایت دی تھی تاہم اسکے بائوجود بھی بیشتر اسپتالوں میں کئی ادویات کی قلت پائی جاتی ہے۔