مولانا اسلام الدین حنفی
ہم جس دور میں زندگی گزار رہے ہیں، اس میں میڈیا سے بچنا نہایت ہی مشکل امر ہے۔ کیونکہ میڈیا اس وقت ہماری ضرورت بن چکا ہے بلکہ اگر یوں کہوں تو بے جا نہ ہوگا کہ میڈیا اس وقت انسان کے جسم کا حصہ بنا ہوا ہے۔ میڈیا شب و روز اپنے عروج کی طرف رواں دواں ہے۔ اس کی ترقی کا عالم یہ ہے کہ یہ ہمارے ذہن و دماغ پر حکومت کر رہا ہے اور اپنے مطابق ہمیں چلانے کی کوشش کر رہا ہے۔ پہلے میڈیا نے ہمیں ٹیلی ویژن دیا، اس میں نئی چیزوں کو ہمیں دکھایا تاکہ ہم اس کی طرف مائل ہوں۔ لیکن اسے ہمیشہ ساتھ رکھنا اور اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرنا ممکن نہ تھا، اس وقت میڈیا نے ہمیں اپنا ایک چھوٹا سا نمونہ موبائل فون کی صورت میں دیا، جن سے ہم کال یا میسج کر سکتے تھے تاکہ ہم ہمیشہ اسے اپنے ساتھ رکھیں اور ضرورت کے مطابق اسے استعمال کریں ،لیکن میڈیا نے ترقی کی اور اس میں کیمرہ،گیلری،میوزک وغیرہ بھی شامل کر دیا۔ کیپیڈ چلانے میں ہمیں تکلیف نہ ہو ،اس کے لیے اینڈرائیڈ دیا اور اس میں انٹرنیٹ ڈال دیا، جس کے ذریعہ ہم گھر بیٹھے پوری دنیا دیکھ سکیں۔ اس نے پہلے ہمیں اپنے قریب کیا جب ہم اس کے ہو گئے تو اس نے اپنی چیزوں کو دکھانا شروع کیا ،ہمیں ایسا لگتا ہے کہ ہم اپنی مرضی کے مطابق اسے استعمال کر رہے ہیں۔ لیکن حقیقت میں میڈیا ہمیں استعمال کر رہا ہوتا ہے۔ اس بات کو یوں سمجھیں کہ جب ہم کوئی ویڈیو دیکھتے ہیں یا کوئی ویب سائٹ چلاتے ہیں تو اس میں ایڈ آتا ہے جسے ہم بغیر دس پندرہ سیکنڈ دیکھے اسکیپ نہیں کر سکتے۔ ساتھ ہی اگر ہم غور کریں تو معلوم ہوگا کچھ برسوں پہلے ہم صرف اپنے مذہبی تیوہار مناتے تھے لیکن آج ہم تیوہار کم غیر شرعی رسومات زیادہ مناتے ہیں، جو میڈیا کا دیا ہوا ہے جیسے کہ برتھ ڈے،مدرس ڈے،فادرز ڈے،ٹیچرس ڈے،اسٹوڈنٹس ڈے،فرینڈ شپ ڈے،ویلنٹائن ڈے وغیرہ میڈیا نے خاص ایام متعین کرکے لوگوں کے لیے ایک موقع فراہم کر دیا کہ اگر ہمیں اپنی ذات کو خوش کرنا ہے تو برتھ ڈے منائیں ،دوستوں کو مدعو کریں اور پارٹی کریں ۔اگر ہمیں والدین کو خوش کرنا ہے یا تحفہ دینا ہے تو مدرس ڈے اور فادرز ڈے منائیں اور بالخصوص نوجوانوں کے لیے بے حیائی کا راستہ ہموار کردیا، اگر انہیں کسی سے نا جائز تعلقات قائم کرنا ہے تو فرینڈ شپ ڈے کا اہتمام کریں اور اپنی محبت کا اظہار کریں ، اگر اپنی خواہشات پوری کرنی ہے تو ویلنٹائن ڈے منائیں۔پہلے ہماری تہذیب ہمارا لباس ہماری غذا کے صحیح اور غلط کا فیصلہ ہم کرتے تھے لیکن آج میڈیا ہمیں بتاتا ہے ہم کس طرح کھانا کھائیں اور کس طرح لباس پہنیں۔ اس نے ہماری بہت سی چیزیں ہم سے دور کردی ،کل تک جو بچے کھلونوں سے کھیلا کرتے تھے آج موبائل فون ان کا کھلونا بنا ہوا ہے۔ پہلے ہم اپنے اہل و عیال رشتے داروں کے ساتھ خوش دلی سے ملاقات کرتے اور وقت گزارتے تھے لیکن میڈیا کی اس ترقی نے ہمیں اپنے اہل و عیال سے دور کر دیا۔ جو احباب شام میں ساتھ بیٹھ کر موسم کی رنگینیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے لطف اندوز ہوا کرتے تھے، آج وہ سوشل میڈیا پر مصروف نظر آتے ہیں، اس پر طرح طرح کی چیزوں کا مشاہدہ کرتے ہیں اور اسی طرح اپنے والدین سے مطالبہ کرتے ہیں اور مطلوبہ چیز پوری نہ ہونے پر ذہنی بیماری کا شکار ہو جاتے ہیں، بعض دفعہ اپنی جان کو ہلاکت میں بھی ڈال لیتے ہیں۔ دور حاضر میں اس کے ذریعہ بعض جرائم بھی انجام دیے جا رہے ہیں جو ناقابل بیاں ہیں جیسے کہ سائبر کرائم اور بلیک میلنگ وغیرہ۔ اس ترقی یافتہ دور میں اگر ہمیں صحیح سالم اور اپنے ذہنی توازن کو برقرار رکھنا ہو تو ہمیں سوشل میڈیا کو بقدر ضرورت استعمال کرنا ہوگا۔ یاد رہے کہ سوشل میڈیا ہمارے لیے بنایا گیا ہے، ہم اس کے لئے نہیں بنائے گئے ہیں۔
(البرکات،علی گڑھ)