کیاکشمیر میں میڈیا کو اپنی اخلاقیات کے دائرے میں کام کرنے کی آزادی حاصل ہے؟ یہ ایک اہم سوال ہے جو بار بار اُس وقت اُبھر کر سامنے آیا ہے، جب میڈیا کو اپنے پیشہ وارانہ فرائض کی انجام دہی سے روکنے کی دانستہ کو ششیں کی جاتی ہیں اور ایسا کرتے وقت تمام قانونی اور اخلاقی تقاضوں کو بالائے طاق رکھنےمیں کوئی باک محسوس نہیں کیا جاتا۔ ایسی ہی صورتحال کل اُس وقت سامنے آئی جب مزاحمتی قیادت کی پریس کانفرنس کو کور کرنے کی کوشش میںسید علی شاہ گیلانی کی قیام گاہ واقع حید رپورہ کے باہر مختلف اخبارات او رمیڈیا اداروں سے منسلک فوٹو جرنلسٹوں کو پولیس نے کھلے بندوں اپنے پیشہ وارانہ فرائض کی انجام دہی سے نہ صرف روکا بلکہ انکی مارپیٹ کرکے جمہوریت کا چوتھا ستون کہلائے جانے والے ادارہ صحافت پر کھلے بندوں وار کیا۔ یہ انتہائی افسوسناک امر ہے کہ یہ سب پولیس ہیڈ کوارٹر سے چند قدم کے فاصلے پر پولیس کے ارباب حل و عقد کی نگاہوں کےسامنے ہوا۔ نئی دہلی سے لیکر سرینگر تک ہمارے سیاستدان خواہ وہ حکمران ہوں یا اپوزیشن میں، میڈیا کی اہمیت افادیت اور جمہوریت کےلئے اسکی لازمی ضرورت پر دعوے داریاں کرتے ہوئے تھکتے نہیں لیکن جب بات کشمیر پر آتی ہے تو یہ سارے دعوے دھڑام سے گر جاتے ہیں ۔ گزشتہ27برسوں کی تاریخ گواہ ہے کہ کشمیر کے میڈیا کو اپنے فرائض کی انجام دہی میں کن کن مشکلات سے ہوکر نہیںگزرنا پڑا مگر جب حقوق پر شب خون مارنے کی کارروائی سرکار کی طرف سے ہو جائے تویہ ایک خطرناک صورتحال کا عندیہ دیتی ہے۔ گزشتہ برس کی ایجی ٹیشن کے دوران صورتحال کی حقائق کی بنیاد پر عکاسی کرنے کے جرم میں کئی اخبارات کے دفاتر اور پرنٹنگ پریسوں پر چھاپے مار کر اخبارات کی اشاعت میں کھلے بندوں رخنہ اندازی کی گئی ، جس کے بارے میں بعد اذاں حکومت نے بھونڈے انداز میں اسے غلط فہمی کا نتیجہ قرار دیا تھا۔ تازہ واقع میں پولیس نے فوٹو جرنلسٹوں کی مارپیٹ کرکے کون سا پیغام دینے کی کوشش کی ہے، حکومت اسکی وضاحت کرنے کےلئے ذمہ دار ہے کہ کیا یہ ذمہ دار پولیس افسرا ن و اہلکاروں کی خود سری ہے یا یہ سرکار کی طرف سے روبہ عمل لائی جارہی کوئی پالیسی ہے۔ اولذکر صورت میں ایسی کارروائی کے ارتکاب کےلئے ذمہ دار افراد کے خلاف کاروائی کرنے کی ضرور ت ہے کیونکہ بصورت دیگر یہ ایک کینسر کی مانند انتظامی سسٹم کے رگ و پے میں سرایت کر جائے گا، جو بالآخر میڈیا کے آئینی حقوق کی پامالی کا مستقل سبب بن سکتا ہے۔ آج حکومت ہند دنیا بھر کے سامنے ملکی میڈیا کو حاصل شدہ آزادی کا ڈول پیٹتے ہوئے تھکتی نہیں ، لیکن کشمیر پہنچ کر اس آزادی کا جنازہ کس طرح نکالاجاتا ہے ، یہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ ایسےحالات میں میڈیا جسے زی عزت پیشے سے وابستہ لوگوں کو سڑکوں پر آکر احتجاج کرنے پر مجبور ہوناپڑتا ہے۔ اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ہے کہ جس سماج میں جمہوریت کا چوتھا ستون کمزور پڑ جائے وہاں جمہوریت کا سارا نظام ناقص قرار پاتا ہے، ایسا ہی کچھ کشمیر میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ یہ دو روزقبل کی بات ہے کہ اقوام متحدہ کی حقوق انسانی کمیٹی میں بھارتی مندوب نے اپنی تقریر میں کشمیر کا حوالہ دیتے ہوئے یہ دعویٰ کیا تھا کہ جموںوکشمیر میں ایک متحرک میڈیا اور سول سوسائٹی موجود ہے۔ وہ اسکا موازنہ پاکستانی زیر انتظام کشمیر کے ساتھ کرکے یہ باور کرانا چاہتے تھے کہ یہاں لوگوں کو اور اداروں کو جمہوری حقوق حاصل ہیں لیکن کل کے اس واقعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ شاید ایسا کچھ نہیں ہے، جو دنیا کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اگر حکومت میڈیا کی آزادی کے حوالےسے سنجیدہ ہے تو انہیں ایسے افراد کی نشاندہی کرکے ان کے خلاف فوری کاروائی کرنی چاہئے، جو قانون کی لاٹھی کا سہارا لیکر جمہوریت کُش، اخلاق شکن اور انسانیت دشمن کاروائی کے مرتکب ہوئے ہیں۔