یو این آئی
سرینگر//پی ڈی پی صدر اور سابق وزیر اعلی محبوبہ مفتی نے اس سال باغبانی شعبے کو پہنچے بھاری نقصان پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ کشمیر کی میوہ صنعت ایسی صورتحال سے پہلے کبھی دوچار نہیں ہوئی تھی، حتی کہ ملی ٹینسی کے عروج کے دور میں بھی اس پیمانے کا نقصان دیکھنے کو نہیں ملا۔سوموار کو نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے محبوبہ مفتی نے کہا کہ سرینگرجموں قومی شاہراہ کی طویل بندش، نقل و حمل میں رکاوٹیں اور ذخیرہ کرنے کے مسائل نے وادی میں بڑے پیمانے پر میوہ جات کو ضائع کر دیا۔ انہوں نے کہا: ملی ٹینسی کے سخت ترین دور میں بھی اتنا بڑا نقصان نہیں ہوا جتنا اس سال ہوا ہے۔پی ڈی پی صدر نے سرکار سے اپیل کی کہ متاثرہ باغ مالکان کو فوری راحت پہنچائی جائے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ کسان کریڈٹ کارڈ کے تحت لیے گئے قرضے معاف کیے جائیں یا کم از کم سود کی رقم ختم کی جائے تاکہ مالی دبا کم ہو سکے۔محبوبہ مفتی نے مزید کہا کہ حکومت کو سابق وزیراعلیٰ مفتی محمد سعید کے دور میں متعارف کرائی گئی مارکیٹ انٹروینشن اسکیم کو دوبارہ شروع کرنا چاہیے، جس کے تحت کم درجے (سی گریڈ)کے سیب سرکاری طور پر خریدے جاتے تھے اور انہیں جوس و دیگر مصنوعات میں استعمال کیا جاتا تھا۔ ان کے مطابق اس اقدام سے نہ صرف منڈی میں استحکام پیدا ہوتا تھا بلکہ بڑی مقدار میں میوہ ضائع ہونے سے بھی بچ جاتا تھا۔انہوں نے کہا کہ میوہ صنعت جموں و کشمیر کی دیہی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے، جو ہزاروں خاندانوں کی روزی روٹی کا ذریعہ ہے اور ٹرانسپورٹروں و تاجروں کو بھی بالواسطہ روزگار فراہم کرتی ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ: سیاحت پہلے ہی بحران سے دوچار ہے، اگر میوہ صنعت بھی ڈھہ گئی تو ہزاروں لوگوں کا روزگار ختم ہو جائے گا۔محبوبہ مفتی نے اپنے دورِ اقتدار کے اقدامات یاد دلاتے ہوئے کہا کہ اس وقت میوہ بردار ٹرکوں کے لیے ٹول ٹیکس ختم کیا گیا تھا اور ہائی ڈینسٹی پلانٹیشن اسکیم شروع کی گئی تھی تاکہ پیداوار کے معیار اور مقدار کو بہتر بنایا جا سکے۔انہوں نے موجودہ این سی قیادت والی حکومت سے اپیل کی کہ باغبانی کے اس بحران کو سنجیدگی سے لیا جائے اور فوری اقدامات اٹھائے جائیں۔ ان کا کہنا تھا: جب بھی کوئی آفت جموں و کشمیر پر آتی ہے تو یہی صنعت اسے سہارا دیتی ہے۔ امید ہے کہ آج کی حکومت بھی اس کی اہمیت کو سمجھے گی اور وقت پر اقدامات کرے گی۔