پلوامہ کے 80فیصدکسان مالی بحران کا شکار
مشتاق الاسلام
پلوامہ//ضلع پلوامہ کیلئے 2025زرعی لحاظ سے تباہ کن سال ثابت ہوا۔ پہلے ستمبر کے مہینے میں تباہ کن سیلاب نے کھیت کھلیان برباد کردئے ، پھر قومی شاہراہ مسلسل بند رہنے سے میوہ جات منڈیوں تک وقت پر نہیں پہنچ پائے بلکہ گاڑیوں میں ہی سڑگئے اور اب زعفران کی پیداوار میںتشویشناک حد تک کمی نے ضلع کی معیشت کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا ہے۔ محکمہ زراعت کی ایک رپورٹ کے مطابق صرف ستمبر کے سیلاب میں 3830ہیکٹر زرعی اراضی مکمل طور پر تباہ ہوگئی۔ سیلابی پانی نے نہ صرف شالی کے کھیت برباد کردئے بلکہ کئی باغات بھی شدید متاثر ہوئے۔ ایک محتاط اندازے کلے مطابق کسانوں کو 15سے 21کروڑ روپے تک کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔ کسانوں کا کہنا ہے کہ دھان کی فصل کے بعد وہ زعفران سے امید لگائے بیٹھے تھے مگر قدرت نے ان کی یہ آخری امید بھی چھین لی۔ دنیا بھر میں مشہور پانپور قصبہ جو زعفران کی وادی کے نام سے جانا جاتا ہے، اس سال سب سے زیادہ متاثر ہوا۔ 3260ہیکٹر زعفران کی اراضی ویران ہو چکی ہے۔ جہاں پہلے زعفران کی خوشبو ہوا میں مہکتی تھی وہاں اب خاموشی اور افسردگی چھائی ہوئی ہے۔ ایک مقامی کسان عبدالرشید بٹ نے بتایا ’’ وقت پر بارشیں بھی ہوئیں، مگر نتیجہ کچھ نہیں نکلا او حد تو یہ ہے کہ مزدوروں کا خرچہ بھی نہیں نکل پارہا ہے‘‘۔ پلوامہ کی معیشت کا بڑا دارومدار زراعت اور زعفران پر ہے۔ زعفران کی پیداوار میں کمی سے ضلع کے 80فیصد کسان مالی بحران کا شکار ہیں۔ مارکیٹ میں زرعی اجناس کی قیمتیں گری ہیں، مزدوروں کی اجرتیں بڑھ گئی ہیں اور فصلوں کی قیمت میں کمی نے حالات مزید بگاڑ دئے ہیں۔ غریب کسانوں کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے پڑنے لگے ہیں۔ کئی خاندان قرضوں کے بوجھ تلے دب گئے ہیں جبکہ کچھ کسانوں نے زمینیں گروی رکھ کر زندگی گزارنے کی راہیں تلاش کرنی شروع کر دی ہیں۔اس ساری صورتحال کے بیچ پلوامہ کے کسانوں کی ہمت قابلِ تعریف ہے۔ وہ اب بھی اپنی زمینوں سے جڑے ہوئے ہیں۔ ایک نوجوان کسان فیاض احمد کہنا ہے ’’ ہم اپنی زمینیں دوبارہ سنواریں گے۔ اگر حکومت ہماری مدد کرے، جدید آبپاشی نظام اور کھاد فراہم کرے تو ہم زعفران کی خوشبو ایک بار پھر پوری دنیا میں پھیلا سکتے ہیں‘‘۔