جاوید اقبال
مینڈھر // اگرچہ سرحد پر فی الحال خاموشی ہے اور جنگ بندی کا اعلان کیا جا چکا ہے، تاہم مینڈھر قصبے میں خوف و دہشت کا سایہ ابھی تک چھایا ہوا ہے۔ قصبے میں معمول کے مطابق دکانیں کھولی تو گئیں، لیکن شام پانچ بجے کے بعد پورا بازار سنسان ہو گیا۔ مقامی تاجروں نے حفاظتی خدشات کے پیشِ نظر وقت سے پہلے ہی اپنی دکانیں بند کر دیں، جبکہ ملحقہ دیہات سے آنے والے لوگوں نے قصبہ آنے سے مکمل اجتناب برتا۔مقامی دکانداروں اور مکینوںکا کہنا ہے کہ گزشتہ دنوں کی شدید گولہ باری نے عوام کو ذہنی اور نفسیاتی طور پر ہلا کر رکھ دیا ہے۔ کئی افراد نے بتایا کہ اس قدر زور دار دھماکوں کی گونج اب بھی اْن کے کانوں میں سنائی دیتی ہے، اور ہر معمولی آواز پر لوگ چونک جاتے ہیں۔ شہریوں نے کہا کہ اگرچہ اب گولہ باری بند ہو چکی ہے، لیکن دلوں سے خوف ختم نہیں ہوا۔قصبے میں کاروباری سرگرمیاں ماند پڑ چکی ہیں۔ جہاں پہلے بازار میں دن بھر رونق ہوا کرتی تھی، آج وہاں ویرانی نے ڈیرے ڈال لئے ہیں۔ ایک مقامی دکاندار نے بتایاکہ ’’ہم نے دکان کھولی، لیکن خریدار نہ ہونے کے برابر تھے۔ لوگ بازار آ ہی نہیں رہے۔ خوف ابھی تک چھایا ہوا ہے‘‘۔ادھر مقامی لوگوں نے انتظامیہ سے اپیل کی ہے کہ متاثرہ علاقوں میں نفسیاتی امداد اور تحفظ کے لئے مناسب اقدامات کئے جائیں، تاکہ لوگ معمول کی زندگی کی طرف واپس لوٹ سکیں ساتھ ہی یہ مطالبہ بھی کیا جا رہا ہے کہ سرحدی علاقوں میں بنکروں کی تعداد بڑھائی جائے اور حفاظتی نظام کو مزید مستحکم کیا جائے۔