سرحدی ضلع پونچھ کے مینڈھر میں گھانی علاقہ میں منگل کی صبح پیش آئے المناک سڑک حادثہ ،جس میں4افراد ہلاک اور46دیگر شدید زخمی ہوگئے ہیں، نے ایک بار پھر مرکز کے زیر انتظام اس علاقہ میںسڑک حادثات ک اندوہناکی کو اجاگر کردیا ہے۔عملی طور پرجموںوکشمیر کی سڑکیں موت کا کنواں بنتی چلی جارہی ہے ۔ اب سڑک حادثات اس تواتر کے ساتھ رونما ہورہے ہیں کہ حساب رکھ پانا مشکل ہوچکا ہے ۔ محکمہ ٹریفک کے مطابق جموں و کشمیر میں گزشتہ7برسوںکے دوران 19104سڑک حادثات رونما ہوئے ہیں، جن میں 4269افراد لقمہ اجل بن چکے ہیںاور 23,848افراد زخمی ہوگئے ہیں۔ دنیا بھر میں شاہرائوں کو ترقی کی علامت سمجھا جاتا ہے اور بدقسمتی سے ہمارے یہاں شاہراہیں دردناک اموات کی علامت بن کررہ گئی ہیں۔ہمارے یہاں سڑک حادثات صرف سرینگر۔ جموںقومی شاہراہ تک ہی محدود نہیں ہیں بلکہ یہ کہنا بے جا بھی نہیں ہوگا کہ یہ واحدخطہ ہے جہاں اوسطاً زیادہ لوگ سڑک حادثات کی نذر ہوجاتے ہیں ۔یہاں رونما ہونے والے حادثات کی شدت بذات خود ٹریفک نظام میں بدترین خامیوں کی موجود گی کا برملا ثبوت ہے۔ عمومی طور پر ہمارے یہاں حادثات کے اسباب سڑکوں کی تنگ دامانی،ہر گذرنے والے دن کے ساتھ بڑھتا ہوا ٹریفک دبائو ،قوانین کی خلاف ورزیوں کا بلا روک ٹوک سلسلہ،جعلی ڈرائیونگ لائسنز یا ڈرائیونگ لائسنز کی اجرائی کا ناقص نظام وغیرہ جیسی چیزیں ہیں۔محکمہ ٹریفک کا غیر متحرک ہونا ستم بالائے ستم کے مترادف ہے۔ اگر پونچھ حادثہ کی ہی بات کی جائے تو جس مسافر گاڑی کو یہ حادثہ پیش آیا ہے تو وہ مسافروں سے کچھا کھچ بھری ہوئی تھی لیکن کسی نے اس طرف دیکھا تک نہیں ہے ۔ایسا نہیں کہ محکمہ ٹریفک میں قابل اور کام کرنے والے لوگ نہیں ہیں۔ لیکن ہمارے ٹریفک محکمہ شدید افرادی قلت اور جدید سہولیات کی محرومی سے دوچار ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہمیں شہروں اور قصبہ جات میں ہی ٹریفک محکمے کی موجود گی محسوس ہوتی ہے۔ظاہر ہے کہ ایسی حالت میں محکمہ ٹریفک اپنی ذمہ داریوں کے ساتھ انصاف کرنے میں سراسر ناکام ثابت ہورہا ہے۔مثلاً ٹریفک قوانین اور ضوابط سے متعلق عوام کو تسلسل کے ساتھ جانکاری فراہم کرنا محکمہ ٹریفک کا ایک مسلسل کام ہونا چاہیے تھا،لیکن اس ضمن میں بہت معمولی توجہ دی جاتی ہے۔حقیقت تو یہ ہے کہ ٹریفک نظام کو سر نو ترتیب دینا وقت کی ایک اہم ضرورت بن گئی ہے ۔نظام ٹریفک کو سنوارنا ایک مسلسل عمل ہے کیونکہ مسائل تو بہرحال ہمیشہ موجود رہیں گے۔ ٹریفک دبائو تو بڑھتا ہی جائے گا۔ ایسا پوری دنیا میں ہورہا ہے۔ بلکہ ہماری آس پاس کی ہی ریاستوں میں جتنا ٹریفک دبائو ہے ہمارے یہاں اسکے مقابلے میں بہت کم ہے۔ لیکن ان ریاستوں کے پاس نظام ہم سے بہتر ہے اور وہ تسلسل کے ساتھ نئے نئے منصوبوں پر عمل پیرا ہیں۔جموں۔ سرینگرقومی شاہراہ یا دوسری سڑکوںاور شاہرائوں کی اہمیت اور حیثیت تو بہر حال ہمیشہ اپنی جگہ موجود ہے۔ضرورت ان سڑکوں پرسفرکو زیادہ سے زیادہ محفوظ بنانے کی ہے۔متمدن قوموں کی ترقی کا راز بھی ہی ہے کہ وہ ہمہ وقت مسائل کا حل تلاش کرتے رہتے ہیں۔ کیا ہم بڑھتے ہوئے ٹریفک حادثات کے پیش نظر شاہراہوں کو زیادہ سے زیادہ محفوظ بنانے کے منصوبے مرتب کریں گے یا پھر اسی طرح حادثات میں ہونے والی اموات کو دیکھتے رہیں گے؟