صائمہ فیضان دانش
اس سال یہ ایک خاص موقع ہے کہ یومِ اساتذہ اور یومِ میلاد النبی ﷺ ایک ساتھ آئے ہیں۔ یہ محض ایک اتفاق نہیں بلکہ ہمارے لیے ایک بڑی یاد دہانی ہے۔ یہ ہمیں یہ پیغام دے رہا ہے کہ اصل معلم رسول اللہ ﷺ ہیں اور استاد کا حقیقی منصب اسی وقت پورا ہوتا ہے جب وہ اپنے آپ کو ان کے مشن کا وارث سمجھے۔میلاد النبی ﷺ کا مطلب محض نعت خوانی اور چراغاں نہیں بلکہ یہ ہے کہ ہم آپ ﷺ کی تعلیمی و تربیتی وراثت کو زندہ کریں۔ استاد کا فریضہ ہے کہ وہ طلبہ کو اس مقصدِ حیات سے روشناس کرائے جس کے لیے اللہ نے انسان کو پیدا کیا:”وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون“( الذاریات: 56)
”اور میں نے جنوں اور انسانوں کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ میری عبادت کریں۔“
یہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ عبادت کا مفہوم صرف نماز، روزہ اور حج تک محدود نہیں۔ عبادت ایک نہایت وسیع اور جامع تصور ہے۔ دراصل ہر وہ قول و فعل، ہر وہ کوشش اور ہر وہ عمل جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی ہدایت کے مطابق ہو، اور جس کا مقصد صرف اور صرف اللہ کی رضا حاصل کرنا ہو، وہ عبادت ہے۔گویاہمارا اٹھنا، بیٹھنا، چلنا، بولنا، لینا، دینا، غرض ہر کام اللہ کے حکم اور سنتِ نبوی ﷺ کے مطابق ہونا چاہیے۔ یہی وہ عبادت ہے جس کے لیے ہمیں پیدا کیا گیا ہے۔
استاد کا رتبہ دنیا کی ہر عظمت سے بلند ہے۔ یہ وہ منصب ہے جو دلوں کو بدل دیتا ہے، نسلوں کو سنوارتا ہے اور قوموں کی تقدیر کا فیصلہ کرتا ہے۔ استاد دراصل اس چراغ کی مانندہے جو خود جل کر دوسروں کو روشنی دیتا ہے۔ جہاں قوموں نے استاد کو پہچانا اور اس کے مقام کو سمجھا، وہاں ان کی تہذیبیں عروج پر پہنچیں اور ترقی کے ستارے ان کے آسمان پر جگمگائے۔لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے اسلاف میں استاد وہ ہستیاں تھیں جو تقویٰ، علم اور اخلاق کی چلتی پھرتی مثال ہوا کرتی تھیں۔ ان کے علم سے زیادہ ان کا کردار متاثر کرتا تھا۔ وہ شاگردوں کو محض کتابی علم نہیں دیتے تھے بلکہ انہیں اچھا انسان، بہترین مسلمان اور سچا خادمِ امت بناتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ شاگرد ان کی جوتیاں سیدھی کرنے کو بھی سعادت سمجھتے تھے۔ یہ اندھی عقیدت نہیں تھی بلکہ اس کردار کی عزت تھی جو استاد کے وجود سے جھلکتا تھا۔ استاد کی نگاہِ تربیت شاگردوں کے دل و دماغ کو روشن کر دیتی تھی اور وہی شاگرد آگے چل کر دنیا کے رہنما اور امت کے معمار بنتے تھے۔اگر آج کا استاد واقعی نبی ﷺ کے اسوہ کو سامنے رکھ کر اپنا کردار ادا کرے تو وہ بھی محض ایک پیشہ ور نہیں بلکہ ایک مجاہد، ایک مربی اور ایک انقلابی معمار بن سکتا ہے۔ لیکن اس کے لیے چند باتیں ناگزیر ہیں:
1. نیت کو خالص کریں: تعلیم کو عبادت سمجھیں، نہ کہ صرف روزگار۔
2. تزکیہ اور تربیت پر زور دیں:شاگردوں کو اچھا انسان اور اچھا مسلمان بنائیں۔ایسی تربیت کریں کہ شاگرد اسلامی کردار کا چلتا پھرتا نمونہ بنیں۔
3. قرآن و سنت کے ساتھ ربط پیدا کریں: ہر علم کو اللہ کی معرفت کی طرف لے جائیں۔
4. عملی نمونہ بنیں:شاگرد استاد کے کردار سے سب سے زیادہ سیکھتے ہیں۔ اس لیے سب سے پہلے خود کرکے بتائیں۔
5. جدید دور کے چیلنجز کو سمجھیں: جو چیلنجز ہیں اس کے مطابق طلبہ کی ذہنی و اخلاقی رہنمائی کریں۔
6. افراد کو باشعور بنائیں: شاگرد کو یہ احساس دلائیں کہ وہ محض ایک فرد نہیں بلکہ امتِ محمد ﷺ کا حصہ ہے۔ اس کا ہر علم، ہر ہنر اور ہر کامیابی صرف اپنی ذات تک محدود نہ ہو بلکہ پوری امت کی بھلائی،اس کے درد کو کم کرنے اور اس کے زخموں کو بھرنے کا ذریعہ بنے۔ استاد کے دل سے نکلا یہ احساس اگر شاگرد کے دل میں اتر جائے تو وہ اپنی ڈگریوں اور ملازمتوں سے آگے بڑھ کر امت کا معمار اور اسلام کا علمبردار بن سکتا ہے۔
”اِنَّمَا بُعِثتُ مُعَلِّمًا“ہمیں یاد دلاتا ہے کہ استاد کا منصب محض عزت و احترام کا نہیں بلکہ ایک انقلابی ذمہ داری کا ہے۔ وہ نبی ﷺ کا وارث ہے، نسلوں کا معمار ہے، اور قوم کی سمت کا تعین کرنے والا ہے۔اگر استاد اپنے مقام کو پہچان لے اور نبی ﷺ کے اسوہءتعلیم و تربیت کو اپنا لے تو ہماری درسگاہیں پھر سے وہی انقلابی کردار ادا کر سکتی ہیں جو کبھی مسجد نبوی نے ادا کیا تھا۔ اور اگر استاد اپنی ذمہ داری سے غافل رہا تو قوم غلامی اور زوال کے اندھیروں سے کبھی نہ نکل سکے گی۔اسی لیے تو علّامہ اقبال کہتے ہیں
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر ، ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ