ڈاکٹر آزاد احمد شاہ
اندھیروں میں ڈوبی ہوئی یہ کائنات، ظلمتوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی انسانیت، بت پرستی اور جہالت کے اندھے کنویں میں گری ہوئی امتیں، آقا و غلام کے فرق پر بٹتی ہوئی دنیا، رنگ و نسل کی بنیاد پر ایک دوسرے کو حقیر جاننے والے انسان، خون کی ندیاں بہاتے ہوئے قبیلے، عورت کو زندہ درگور کرنے والی قومیں، یتیموں کا سہارا چھیننے والے دل، کمزور کو روندنے والی طاقتیں اور سب سے بڑھ کر وہ دل جو اپنے ہی رب کو بھول بیٹھے تھے، کہیں آگ کے سامنے جھکنے والے، کہیں پتھر کو پوجنے والے، کہیں سورج اور چاند کو اپنا معبود ماننے والے، دنیا میں ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا چھا گیا تھا۔ انسانیت تڑپ رہی تھی، آسمان و زمین گویا پکار رہے تھے کہ اب کوئی رحمت، کوئی نور، کوئی رہنمائی نازل ہو۔ پھر وہ ساعت آ پہنچی جس کا انتظار صدیوں نے کیا تھا، وہ لمحہ آ گیا جس کی بشارت انبیائے کرام نے دی تھی، وہ گھڑی طلوع ہوئی جس کے ذکر سے تورات و انجیل روشن تھیں، مکہ کی وادیوں میں روشنی کا ایک ایسا مینار بلند ہوا جس نے کائنات کی تاریکیوں کو چھیر کر رکھ دیا۔ آمنہ کے لالؐ کی ولادت باسعادت ہوئی۔ دنیا کے ماتھے سے غفلت و شرک کی دھول جھڑ گئی اور فرشتوں نے نغمہ سنایا،آقا کا میلاد آیا۔ یہ میلاد صرف ایک ہستی کی پیدائش نہیں تھی بلکہ یہ کائنات کے لیے سب سے بڑی رحمت کا نزول تھا۔ قرآن نے خود اعلان کیا، وما اَرسلناك اِلا رحمة للعالمين — ،اے محبوب! ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ رحمت کا یہ دریا 12 ربیع الاول کی صبح کو پوری شدت کے ساتھ بہہ نکلا۔ آقا کی ولادت کے وقت دنیا کے بت خانوں میں لرزہ طاری ہو گیا، کسریٰ کے محل کی بنیادیں ہل گئیں، جھوٹے خداؤں کے معبد ٹوٹنے لگےاور وہ آگ جو ہزاروں سال سے فارس میں جل رہی تھی خود بخود بجھ گئی۔ یہ اشارہ تھا کہ اب ظلم کا عہد ختم ہوا اور نورِ حق کا دور شروع ہوا۔
میلاد النبیؐ کا دن صرف خوشی کا دن نہیں ہے بلکہ یہ دن ہمارے دلوں کو جھنجھوڑنے کے لیے ہے کہ ہم سو چیں،کیا ہم نے اس آقا کی تعلیمات کو اپنی زندگی میں جگہ دی؟ کیا ہم نے اس رحمت للعالمین کے کردار کو اپنایا؟ کیا ہماری زندگیوں میں عدل، محبت، رحم دلی اور اخوت ہے؟ میلاد کا مطلب محض محفلیں سجا دینا نہیں بلکہ میلاد کا اصل حق یہ ہے کہ آقاؐ کی سیرت کو آئینہ بنا کر اپنی زندگی کو سنوارا جائے۔آقا کا میلاد ہمیں بتاتا ہے کہ اندھیروں سے روشنی کی طرف کیسے بڑھنا ہے۔ میلاد ہمیں یاد دلاتا ہے کہ کمزوروں کے ساتھ نرمی کی جائے، یتیموں کو سہارا دیا جائے، عورت کو عزت دی جائے، علم کو عام کیا جائے اور سب سے بڑھ کر اللہ کی بندگی کو اختیار کیا جائے۔
آقا کے میلاد کا ذکر کرتے ہوئے دل خود بخود بھیگ جاتا ہے کہ وہ لمحہ کتنا بابرکت تھا۔ ایک یتیم بچہ، جو دنیاوی لحاظ سے نہ مالدار تھا نہ بادشاہ، لیکن آنے والی تاریخ میں وہی یتیم پوری انسانیت کا سہارا بن گیا۔ وہی بچہ، جو کبھی ماں کی آغوش میں اور کبھی دادا و چچا کی سرپرستی میں پروان چڑھا، آخرکار دنیا کو بتا گیا کہ عزت اور عظمت خاندانی جاہ و حشمت میں نہیں بلکہ تقویٰ، سچائی اور خدمتِ خلق میں ہے۔
میلاد کے موقع پر جب قلوب نرم ہو جاتے ہیں تو آنکھیں خود بخود اشک بار ہو جاتی ہیں۔ یہ آنسو صرف خوشی کے نہیں ہوتے بلکہ احساسِ محبت اور کرب کے ہوتے ہیں۔ محبت اس لیے کہ ہمیں ایسا آقا ملا جس نے ہمیں اندھیروں سے نکالا۔ کرب اس لیے کہ آج ہم ان کی تعلیمات سے کتنے دور جا بیٹھے ہیں۔ اگر آج بھی ہم ان کی سیرت کو تھام لیں تو دنیا کی ہر ظلمت چھٹ جائے گی۔ آقاؐنے اپنی حیاتِ مبارکہ میں جو نور بکھیر دیا وہ آج بھی باقی ہے۔ آپ کی سیرت کے ہر گوشے میں میلاد کا پیغام چھپا ہے۔ جب آپ یتیموں کے سر پر دستِ شفقت رکھتے تھے تو یہ بھی میلاد تھا، جب آپ دشمنوں کو معاف کر دیتے تھے تو یہ بھی میلاد تھا، جب آپ نے فرمایا أفضل الناس أنفعهم للناس (لوگوں میں سب سے بہتر وہ ہے جو دوسروں کے لیے سب سے زیادہ نفع بخش ہو) تو یہ بھی میلاد ہی کی روشنی تھی۔ آج ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ ہم میلاد کو محض محفلوں تک محدود کیوں کر دیتے ہیں۔ اگر ہم میلاد کی اصل روح کو سمجھ لیں تو ہمارے دل اور معاشرے بدل جائیں۔ میلاد یہ کہتا ہے کہ مسلمان سچ بولے، امانت دار ہو، وعدہ پورا کرے، کسی پر ظلم نہ کرے، اپنے بھائی کے لیے وہی پسند کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔
آقا کے میلاد کا دن ہمیں اس بات کا یقین دلاتا ہے کہ اللہ نے ہمیں کبھی اکیلا نہیں چھوڑا۔ جب دنیا ظلم و جبر سے بھر گئی تھی تو اللہ نے اپنے محبوب کو بھیج کر یہ اعلان کیا کہ اب انسانیت کو ایک ایسا رہنما ملا ہے جو قیامت تک کے لیے راہ دکھاتا رہے گا۔ اس کے بعد کسی نبی کی ضرورت نہیں رہی کیونکہ محمد مصطفیٰ ؐ کی سیرت ہر زمانے کے لیے کافی ہے۔ کاش ہم میلاد کے دن یہ عہد کریں کہ ہم اپنے گھروں میں انصاف قائم کریں گے، اپنی زبان کو جھوٹ اور غیبت سے پاک کریں گے، اپنے دل کو کینہ اور نفرت سے صاف کریں گے، اپنی آنکھوں کو گناہوں سے بچائیں گےاور اپنے معاشرے میں بھائی چارہ عام کریں گے۔ یہی اصل میلاد ہے۔
آقاؐ کے میلاد کا ذکر ایک ایسا چراغ ہے جو کبھی بجھتا نہیں۔ یہ چراغ ہر صدی، ہر زمانے میں روشنی دیتا ہے۔ مکہ کے ریگستان سے اٹھنے والی یہ روشنی آج بھی ہمارے دلوں کو منور کر سکتی ہے، اگر ہم اسے دل سے اپنائیں۔ میلاد ہمیں سبق دیتا ہے کہ اللہ کے نبیؐ کی محبت ہی اصل ایمان ہے۔ ایک صحابی نے پوچھا: یا رسول اللہ! قیامت کب آئے گی؟ آپ نے فرمایا: تم نے اس کے لیے کیا تیاری کی ہے؟ عرض کیا: زیادہ نفل اور روزے تو نہیں، مگر میں اللہ اور اس کے رسولؐ سے محبت کرتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: المرء مع من أحب (آدمی اسی کے ساتھ ہوگا جس سے وہ محبت کرتا ہے)۔ تو میلاد کا پیغام یہ ہے کہ ہم اپنے آقا سے سچی محبت کریں اور ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی کوشش کریں۔
میلاد کا دن ہمیں بار بار پکار کر کہتا ہے: اپنی حالت سنوار لو، ورنہ کل قیامت کے دن شفاعت کے طلبگار بننے کا حق ادا نہ ہوگا۔ اگر ہم نے میلاد کی اصل روح کو سمجھ لیا تو ہمارے معاشرے میں نفرت کی جگہ محبت ہوگی، ظلم کی جگہ عدل ہوگا، اور جہالت کی جگہ علم ہوگا۔ اللہ ہمیں توفیق دے کہ ہم میلاد کے دن خوشی منانے کے ساتھ ساتھ آقاؐ کی سیرت کو اپنائیں، ان کی محبت کو اپنے دلوں کا مرکز بنائیں اور ان کی تعلیمات کو اپنی زندگی کا سرمایہ بنائیں۔آقا ؐکا میلاد آیا، دل کی دنیا جگمگائی، آنکھیں بھیگ گئیں، دل لرز گیا اور زبان بے ساختہ پکار اٹھی: یا رسول اللہؐ! ہمیں اپنی غلامی میں قبول کر لیجیے۔
(مضمون نگار ایک معروف اسلامی اسکالر،
سماجی کارکن اور روحانی معالج ہیں)