محمد امین اللہ
اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی تمام مخلوقات میں تخلیقی تنوع رکھا ہے ۔ ساخت ، خصوصیات سب کے الگ الگ بنائے ہیں ۔ نباتات ، جمادات ، حیوانات ، جن و انس حتیٰ کے ملائکہ سب کو مختلف النوع بنایا ۔ پھلوں اور میواجات کو دیکھیں تو اک ہی پھل ذائقہ کے اعتبار سے مختلف ہوتے ہیں ۔
مگر میرا موضوع تحریر انسان اور اس کی میعاد زندگی میں افراط و تفریط کے اثرات کے تعلق سے ہے ۔ میعار زندگی کا تعلق انسانوں کی مجموعی معاشی حالات سے ہے ۔
قدرت نے دنیا کے ہر خطے میں رہنے والے انسانوں کو جسمانی جسامت ، طاقت ، ذہنی صلاحیتوں,رنگ و نسل ، زبان کے اعتبار سے مختلف بنایا ہے ۔ پہاڑی ، جنگلی ، صحرائی ، میدانی اور برفانی علاقوں کے رہنے والے لوگ ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں ۔ جغرافیائی محل ِوقوع اور تغیرات کے حوالے بھی مختلف ہیں اور ان ممالک میں معدنیات اور قدرتی وسائل بھی کہیں کم کہیں زیادہ ہیں ۔ آج کی دنیا ایک عالمی گاؤں کی صورت میں تبدیل ہو چکی ہے اور جدید سائنسی ترقی کا عالم یہ ہے کہ پل بھر میں مشرق کا رہنے والا مغرب کے حالات سے باخبر ہوتا رہتا ہے ۔ جن ملکوں کے حکمران عوام دوست ، با صلاحیت اور ایماندار ہیں وہاں کے عوام کو مجموعی طور پر روز مرہ کی زندگی کے بنیادی وسائل بہتر انداز میں میسر ہے ۔ امریکہ، یورپ ، جاپان ، ملائشیا ، انڈونیشیا ،اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں میعار زندگی میں اتنی زیادہ افراط و تفریط نہیں ہے ۔ یہ وجہ ہے کہG7 اور G20 کے ممالک عالمی معیشت میں اپنا اونچا مقام رکھتے ہیں بلکہ یوں کہنا درست ہوگا کہ انہیں کا سکہ چلتا ہے ۔ یہاں کی عوام کا per Capita income بھی تیسری دنیا مثلاً ،افریقہ اور ایشیاء کے غریب ممالک سے بہتر ہے ۔ میعار زندگی کا تعلق تو معاشی خوشحالی سے ہے اور معاشی خوشحالی کا دارومدار بہتر حکمرانی اور ملکی وسائل کا استعمال منصفانہ اور مساوی تقسیم سے مربوط ہے ۔ عرب دنیا میں جب سے معدنی تیل کے ذخائر دریافت ہوئے، اس کے بعد سے ان ممالک کی معاشی حالت میں ایسی بہتری آئی کہ عوام کو ہر طرح کی سہولیات آسانی سے میسر ہیں ۔ صحرا کے رہنے والے بھی اب فلک بوس عمارتوں میں دنیا کی جدید ترین آسائشوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں بلکہ امریکہ اور یورپ کی معیشتوں میں یہاں کی دولت ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے ۔ گو کہ یہاں تعلیم ، صحت اور روز مرہ کی زندگی کی تمام سہولیات عوام کو ریاست کی جانب سے فراہم کی جاتی ہیں جس کی وجہ سے دولت کی ریل پیل نے ایک ایسا معاشرہ جنم دیا ہے کہ عرب عوام کو محنت اور مشقت سے دور کر دیا ہے بلکہ ان کی ذہنی سطح اور تخلیقی صلاحیتوں کو گھن لگ چکا ہے ۔ باہر سے درآمد شدہ عوامی خدمت اور دیگر کام کے لئے ہندوستان ، پاکستان ، فلپائن اور غریب افریقی ممالک کے افراد یہاں لاکھوں کی تعداد میں کام کر رہے ہیں، حتیٰ کہ پولیس اور فوج میں بھی درآمد شدہ افراد موجود ہیں ۔
اللّٰہ کے رسول ؐ نے جس مال کے فتنے سے اپنی امت کو ڈرایا تھا وہ فتنہ عرب اقوام کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے ۔ یہ کیسے ممکن تھا کہ اسرائیل گزشتہ سات دہائیوں سے عربوں کی عزت و آبرو سے کھیل رہا ہے ، فی الحال غزہ کی نہتی عوام پر قیامت ڈھا رہا ہے اور ریاض میں رقص و سرود کی محفلیں برپا ہوں اور سرزمینِ مقدس کے تقدس کو پامال کیا جائے ۔ یہ دولت کی افراط اور سیلاب ہے جس نے عربوں کو بزدل و بے غیرت بنا دیا ہے ۔
قانون فطرت یہ نہیں کہ ہر شخص کو یکساں رزق نصیب ہو بلکہ خدا کسی کو کم کسی کو نپا تلا کسی کو وافر دیتا ہے ۔پیغمبر اسلام ؐنےجو حکومت اور معاشرہ قائم کیا، اس میں میعار زندگی میں افراط و تفریط کا دور دور تک پتہ نہیں تھا ۔ دولت مند غریب کی سرپرستی کرنا اپنا فرض سمجھتے تھے ،دولت مند صحابہ کے میعار زندگی اور عام لوگوں کی میعار زندگی میں کوئی فرق نہیں تھا ،سادگی کے ساتھ زندگی گزارنے کا چلن عام تھا ۔ لہٰذا غریبوں اور ناداروں میں احساس محرومی نہیں تھی ۔ حتیٰ کہ خلفاء راشدین تو پیوند لگے کپڑے پہنتے تھے ۔ مگر جب وقت گذرنے کے ساتھ دور خلافت کا خاتمہ ہوا، مسلمانوں کی سلطنت مشرق تا مغرب پھیل گئی خوشحالی قدم چومنے لگی، دولت کی ریل پیل ہو گئی تو بادشاہوں اور عام رعایا کی زندگی میں کوئی مماثلت نہیں رہی ،محلات کے آثار آج بھی دیکھنے کے بعد آنکھیں خیرہ ہو جاتی ہیں ۔ اسی افراط و تفریط نے عیش پرستی اور تن آسانی نے صدیوں پر محیط مسلمانوں کی حکومت کا دھڑن تختہ کر دیا ۔ اللہ نے فضول خرچی کرنے والے کو شیطان کا بھائی قرار دیا ہے ۔
ہندوستان ، پاکستان اور بنگلادیش میں دو ارب کے لگ بھگ انسان آباد ہیں ۔ لیکن ان ممالک میں ہر آئے دن کے ساتھ غریب غریب تر ہوتا جا رہا ہے، امیروں اور حکمرانوں کی دولت میں بے پناہ اضافہ ہو رہا ہے ۔ ان ممالک میں اکثریتی آبادی غربت کی لکیر کے نیچے رہنے پر مجبور کر دی گئی ہے ۔ شہری اور دیہاتی زندگی میں زمین آسمان کا فرق نظر آتا ہے ۔ روٹی ،کپڑا ، مکان ، روزگار ، تعلیم اور صحت کا حصول غریبوں کے لئے مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے ۔ لہٰذا ان ملکوں میں بیماری اور ناقص سہولیات زندگی کی وجہ سے پھیل چکی ہے ۔ Slum areas and villages کی بھرمار ہے ،جہاں زندگی گذاری نہیں جاتی بلکہ رندگی سسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان ممالک میں ہر طرح کے جرائم کی بھرمار ہے ۔ جہاں اشرافیہ کے پالتو جانور مینرل واٹر پیتے ہوں اور غریب دیہاتی جوہڑ کا پانی پی کر وقت سے پہلے مر جاتا ہے ۔ ان کا علاج عوام کی لوٹی ہوئی دولت سے لندن اور پیرس میں ہو اور غریب کو سرکاری اسپتالوں میں درد دور کرنے والی پناڈول کی گولی تک میسر نہیں ہو۔ پھر اس ملک میں نفرت اور جرائم ، نہیں تو اور کیا پروان چڑھے گا ۔حاکموں نے ایک نیا فرمان جاری کر دیا ہےکہ آج سے آب و ہوا میں تازگی مت ڈھونڈیئے
غریب شہر تو فاقے سے مر گیا عارف
امیر شہر نے ہیرے سے خود کشی کر لی
اسلام دین فطرت ہے، اس میں سادگی اور قناعت ، رواداری اور ترحم سے زندگی گذارتے کا حکم ہے ۔ بڑے بوڑھوں نے فرمایا کہ رہے سادہ کے نبھے باپ دادا ۔ خلق خدا کی خدمت کو اسلام میں نیکیوں میں سے بہترین نیکی قرار دیا گیا ہے ۔
درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے کر و بیاں
لیکن افسوس کہ ساتھ یہ حقیقت بیان کرنا پڑ رہی ہے کہ اب یہاں امیر و غریب کے درمیان ایک ایسا طبقاتی معاشرہ وجود میں آگیا ہے کہ شہری آبادیوں میں رہنے والے لوگوں میں بھی طبقاتی تعصب اور عدم رواداری کا زہر بھرا ہوا ہے۔ زیادہ پوش اور امیر لوگ کمتر رہائشی علاقے کے لوگوں کو گردانتے ہی نہیں الا یہ کہ دیہی آبادیوں میں رہنے والے لوگوں سے ملنا جلنا اور رشتے کرنا گوارہ نہیں کرتے ۔ community life اجتماعی معاشرتی زندگی کا تصور تو دور کی بات ہے ۔ حتیٰ کے پوش علاقوں کے رہائشی تو اپنے پڑوسیوں سے بھی کم راہ و رسم رکھتے ہیں ۔ ایک گھر میں اگر کوئی میت ہو جائے تو غریب آبادیوں کی طرح جنازوں میں شرکت بھی کم کم ہوتی ہے ۔ غریب علاقوں میں اگر رات گئے بھی کوئی حادثہ ہو جائے تو پڑوسی اکٹھے ہو جاتے ہیں ۔
آسائش حیات تو مل جائے گی مگر
لیکن سکون قلب مقدر کی بات ہے
اجتماعی خاندانی نظام بھی اب خال خال باقی رہ گیا ہے ۔ جس میں برکت ،غم گساری ، اور باہمی محبت و روا داری تھی ۔
یہ شہر ہے دستور نبھاتے رہئے
دل ملے نہ ملے ہاتھ ملاتے رہئے
(نوٹ۔ اس مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)