اہل عرفان و یقین نے بجا طور پر وادی کشمیر کو رشیوںاور اولیائے کرام کی سرزمین کہا ہے کیونکہ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ روز اول سے اس مردم خیز سرزمین میں جہاں سینکڑوں سرکردہ اولیائے کبار نے عالم اسلام کے مختلف خطوں سے یہاں آکر دین اسلام کی تبلیغ و اشاعت میں نمایاں اور قابل فخر کارنامے انجام دیا اور پھر اکثر و بیشتر یہیں کے ہو رہے، وہاں اس خوبصورت سرزمین سے بھی ہر دور میں بڑی تعداد میں ایسی نابغۂ روزگار ہمہ جہت اور عظیم المرتبت روحانی شخصیات پیدا ہوتی رہی جن پر اہالیانِ کشمیر خاص طور پر ملت اسلامیہ کشمیر کو بجا طور پر فخر اور ناز ہے ۔تفصیل کا تو خیر یہ موقعہ نہیں ہے، تاہم یہ امر واقع ہے کہ انہیں اہل اللہ ، رجال کار اور عظیم المرتبت خدا دوست اور خدمت ِخلق کے جذبات سے سرشار مردم ساز شخصیات کے صدقے اور بہ طفیل روحانی توجہات بلا کسی امتیاز وتفریق کے کشمیری عوام، روحانی فیوض و برکات حاصل کرتے رہے اور یہ مبارک سلسلہ آج بھی جاری ہے ۔کشمیر میں داعی ٔاسلام و مبلغ ِمسلمانی حضرت امیر کبیر میر سید علی ہمدانی قدس اللہ سرہٗ العالی کے مبارک اور بافیض قافلے کے ساتھ جب ۷۰۰؍ سادات وارد کشمیر ہوئے، انہیں میں میرواعظین ِکشمیر کا عظیم خاندان بھی شامل تھا ۔ا س ہمہ آفتاب ا خاندان میں ایک سے بڑھ کر ایک رشد و ہدایت اور دعوت و تبلیغ اور پند واصلاح و ناصح کے آفتاب و ماہتاب پیدا ہوئے جنہوں نے اپنے روحانی کمالات اور عرفانی فیوض و برکات سے اہالیان کشمیر کی تعلیم و تربیت اور اصلاحِ معاشرہ میں کوئی کمی اور کوتاہی نہیں برتی ۔ اسی بافیض خاندان کے ایک فرد فرید ، خلوت نشین ، درویش صفت خصوصیات کے حامل ، روحانیت اور پاکیزگی کے مجسمہ ،ولی کامل میرواعظ مولانا عتیق اللہ شاہ صاحب علیہ رحمہ کی ذات گرامی تھی۔
میر واعظ کشمیر مولانا عتیق اللہ صاحب ریاست کشمیر کے عظیم دانشور، مفکر، عالم باعمل، مرد درویش اور صوفی بزرگ تھے۔ عبادت، ریاضت ، تقویٰ، طہارت ، ذکر و اذکار اور اوراوراد آپ کا محبوب مشغلہ تھا۔ آپ جید حافظ قرآن، علم تجوید، قرأت اور حدیث، تفسیر و علوم دینیہ کے ماہر، مستجاب الدعوات اور مرجع خلائق تھے۔آپ کا اوراد و اذکار سے شغف اور دعائوں کی قبولیت کا یہ عالم تھا کہ نہ صرف مسلمانان کشمیر بلکہ غیر مسلم افراد بھی کشمیر کے دور دراز علاقوںسے جوق در جوق ان سے دعا و تعویذ حاصل کرنے کیلئے گھنٹوں ان کی رہائش گاہ میرواعظ منزل واقع در شہر خاص راجویری پر انتظار کرتے اور اللہ تبارک و تعالیٰ کے فضل وکرم اور مرحوم میرواعظ کی دعائوں کی برکت سے اکثر حاضرین اور سائلین کی مشکلات آسان اور مراد پوری ہوتی تھیں۔میرواعظ عتیق اللہ شاہ صاحب اپنے مزاج اور افتاد طبع کی بنیاد پر ایک خلوت نشین اور عابد و زاہد شخصیت کے مالک تھے ۔ عوامی اژدہام اور بھیڑ بھاڑ سے و ہ طبعاً دور رہنے کی کوشش کرتے تھے ۔ اس دوران آپ کے معدے میں تکلیف کی وجہ سے جراحی کا عمل پیش آیا جس کے سبب آپ وعظ خوانی سے پرہیز فرماتے رہے۔ا دھر حسن اتفاق کہ آپ کے ہی دور میں آپ کے بھتیجے اور نامور عالم دین مہاجر ملت مفسر قرآن میرواعظ مولانا محمد یوسف شاہ صاحبؒ ازہرہند دارالعلوم دیوبند سے اپنی علمی پیا س بجھا کر اور اعلیٰ سندات لے کر کشمیر واپس آچکے تھے، لہٰذا مرکزی جامع مسجد سرینگر کے منبر و محراب سے میرواعظ کے فرائض منصبی انجام دینے کیلئے آپ سے بہتر کوئی دوسری شخصیت ہو نہیں سکتی تھی ۔چنانچہ علامہ میرواعظ محمد یوسف شاہ صاحب ؒنے جس طرح سے کئی دہائیوں تک اس منصب کو زینت دے کر قال اللہ و قال رسول ﷺ کے عظیم پیغام کو عام کرنے کی کا میاب کوشش کی ، وہ کشمیر کی تاریخ کا ایک سنہری باب ہے۔
تعلیمی انجمن نصرۃالاسلام کی طرف سے شائع کردہ سالانہ رودادیں مرحوم کی لکھی ہوئی ہیں۔ ان کے علاوہ ’’سیر الواعظین‘‘ کے نام سے آپ نے خاندان میر واعظ کی اجمالی تاریخ بھی تحریر کی ہے۔ آپ خوش نویسی میں بھی کمال کا درجہ رکھتے تھے۔ آپ کی تحریریں بڑی خوبصورت اور پُر کشش ہوتی تھیں اور میرواعظین کے اکثر مواعظ ، مواعظ حسنہ اور خطبات آپ ہی کے قلم سے تحریر کردہ موجود ہیں، جن کا آج بھی مطالعہ کرنے کے بعد مرحوم کے دینی علوم و فنون پر گہری نظر اور زبردست دسترس کا اندازہ ہوتا ہے ۔مرحوم میرواعظ انجمن نصرۃ الاسلام کے قیام کے فوراً بعد پہلے معتمد عمومی یعنیGeneral Secretary بنائے گئے اور پھر بعد میں آپ نے بحیثیت صدر انجمن ادارہ کے تئیں گرانقدر خدمات انجام دیں۔ادارہ کے بانی و مورث علامہ میرواعظ رسول شاہ صاحبؒ کی وفات کے بعد مرحوم کے برادر مرحوم میرواعظ احمد اللہ شاہ صاحب انجمن کے سربراہ بنے اور پھر ۱۹۳۱ء میں مرحوم میرواعظ احمد اللہ شاہ صاحب کی وفات کے بعد مرحوم میرواعظ عتیق اللہ شاہ صاحب باضابطہ صدر بنائے گئے ۔فی الحقیقت انجمن کے تئیں آپ کا دورِ صدارت ہر لحاظ سے تعمیر وترقی اور عروج و سربلند ی کا سنہری دور رہا ہے اور آپ کے ہی دور صدارت میں انجمن نے کئی تعلیمی مراحل تیزی سے طے کئے ۔
جموںوکشمیر خاص طور پر وادی میں غیر معمولی حالات تقسیم ہند کے مضر اثرات اور انجمن کے مالی بحران اور مجبوریوں کے باوجود جب عام غریب کشمیری مسلمان اپنا پیٹ کاٹ کر انجمن کی تعلیمی سرگرمیوں کو جاری رکھنے کے لئے حتی المقدور مالی مدد کرتے رہے اور اسی دوران وقت کے حکمرانوں نے جب اسلامیہ ہائی اسکول کا نام تبدیل کرکے علامہ رسول شاہ میموریل ہائی اسکول رکھنے کی تجویز پیش کی تھی تاکہ حکومت سے گرانٹ کی رقم انجمن کو واگذار کرانے میں سہولت ہو ،تو مرحوم میرواعظ نے یہ کہہ کر انہیں صاف جواب دے دیا کہ یہ ادارہ اسلام کے نام پر قائم کیا گیاہے اور اسی نام پر انشاء اللہ قائم رہے گا، جب تک عتیق اللہ زندہ ہے ان کی یہ خواہش ہرگز پوری نہیں ہونے دی جائے گی۔یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ۱۹۳۱ء سے لے کر ۱۹۶۱ء تک انجمن نے جو اہم اور سرکردہ شخصیات ماہرین تعلیم، علماء، سیاستدان ، ڈاکٹرس ، انجینئرس، واعظ، خطیب ، ائمہ وغیرہ قوم و ملت کو عطا کئے ، یہ وہی شخصیات ہیں جو آگے چل کر کشمیر کے وقت کے مشاہیر اور رہبر و رہنما ثابت ہوئے جنہوں نے کشمیر کا نام پوری دنیا میں بلند کیا۔ اسی دور کو انجمن کا تعلیمی ،تعمیری اور اصلاحی پہلوئوں کے لحاظ سے ایک سنہری دور(Golden Period) کہا جاتا ہے۔ آپ ہی کے دور میں جب پہلی بار ۱۹۵۵ء میں اسلامیہ اسکول نذر آتش ہوا تو مرحوم میر واعظ نے عوامی بھر پور اشتراک اور تعاون سے ایک قلیل مدت میں اسلامیہ اسکول کی نئی تعمیر و تجدید میں ایک کلیدی کردار ادا کیا۔مرحوم میرواعظ عتیق اللہ کے مبارک دور میں ہی عوامی اشتراک اور تعاون سے ہی انجمن اور اسلامیہ ہائی اسکول کی موجودہ تعمیرات تکمیل پذیر ہوئیں اورآپ کے ہی دور صدارت میں اسلامیہ کالج آف سائنس اینڈ کامرس سرینگر کا قیام عمل میں لایا گیا اور آپ ہی اس کالج کے بانی صدر بنے جس کے قیام کی وجہ سے شہر سرینگر کے بچوں کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی سہولیات فراہم ہوئی ۔ اسلامیہ کالج آج کشمیر کا ایک اہم ترین تعلیمی ادارہ ہے اور یہ ادارہ ملت کشمیر کے تئیں بیش بہا اور نمایاں خدمت انجام دے رہا ہے۔مرحوم میرواعظ کا سنہ ولادت ۱۲۹۱ھ ہے۔ ۹۰ سال کی عمر میں ۲۴ ماہ ِ ذیعقدہ ۱۳۸۱ھ مطابق ۳۰ اپریل ۱۹۶۲ء کوکا سفر ولادت ۱۲۹۱ھ کو آپ راہ روِ عالم بقا ہوئے۔انا للہ وانا الیہ راجعون
اُس روز ریاست کا سارا کاروبار معطل رہااور سرکاری طور پر تعطیل رہی۔ مرحوم کی نماز جنازہ عید گاہ سرینگر میں لاکھوں لوگوں نے ادا کی اور آبائی مقبرہ، مقبرہ میرواعظین ملہ کھاہ میں دفن کئے گئے۔اللہ تعالیٰ مرحوم میرواعظ کے درجات بلند فرمائیں اور ہم ہرسال ان کا یوم وصال منا تے چلے آرہے ہیں، ہمیں ان کے دینی و اصلاحی مشن کی آبیاری کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین