30جنوری 2019ء کو بلال غنی لون کی طرف سے اپنی پارٹی ’پیپلز کانفرنس‘ کا نام تبدیل کرکے ’پیپلز انڈ یپنڈنٹ مومنٹ‘ کرنے کی تقریب پر حریت (ع) ہیڈ کوارٹر راجباغ سری نگر میں خطاب کرتے ہوئے میر واعظ عمر فاروق نے کہا کہ ہندوستان کی جانب سے کشمیر اور کشمیریوں کے تئیں سخت گیر رویے کی وجہ سے کشمیری نوجوان ’انتہائی غصے‘ میں ہیں اور اسی لئے عسکریت کا راستہ اپنا ر ہے ہیں۔ ساتھ ہی میر واعظ نے یہ بھی کہا کہ ان نوجوانوں نے اسلحہ کی کوئی با ضابطہ تربیت حاصل نہیں کی ہے لیکن ہندوستانی فورسز ان کو بے دردی سے ہلاک کر رہے ہیں ۔
میر واعظ کا کہنا صد فی صد صحیح ہے۔ مسئلہ کشمیر کے حل کی خاطر کسی جانب سے کوئی پہل نہیں ہو رہی ہے۔ صورتحال دن بہ دن بد سے بد تر ہوتی جا رہی ہے، نوجوانوں کو اپنا مستقبل بہت زیادہ غیر یقینی دکھائی دے رہا ہے، حکومت ہند کی جانب سے مصالحت کی جگہ طاقت کی پالیسی کی وجہ سے نوجوانوں میں غصہ ہے اور اسی غصے کی وجہ سے کچھ نوجوان ہتھیار اُٹھالیتے ہیں اور تربیت یافتہ نہ ہونے کی وجہ سے فورسز کے ہاتھوں ہلاک ہورہے ہیں۔ یہ ایک سنگین صورتحال ہے اور میر واعظ نے اس صورتحال کو الفاظ کا جامہ پہنا کر ہر کسی کو ایک موقع فراہم کیا ہے کہ اس صورتحال پر سنجیدگی سے غور و خوض کیا جائے۔
مزاحمتی تحریک ایک پہاڑی دریا کے مانند ہوتی ہے۔ غصہ ور لہریں راہ میں آنے والی ہر چیز کو اپنے ساتھ بہا کے لے جاتی ہیں۔ اگر ان لہروں کو قابو میں رکھنے کا فن نہ آتا ہو تو یہ لہریں ہر سو تباہی مچاسکتی ہیں۔ لیکن اگر ان لہروں کو صحیح سمت دی جائے تو یہی پانی پینے کے کام آسکتا ہے ، فصلوں کی آب پاشی کے کام آسکتا ہے اور بجلی بنانے کے کام بھی آسکتا ہے۔ مزاحمتی قیادت کو اس پہاڑی دریا کے دو کناروں کا رول ادا کر نا ہوتا ہے۔ کنارے جتنے مظبوط ہونگے، لہریں اتنا ہی قابو میں رہیں گی لیکن اگر کناروں سے ذرا بھی چُوک ہوئی تو سیلاب کی بربادیوں کو کوئی نہیں روک سکتا۔ میر واعظ نے اپنی تقریر میں جس صورتحال کا ذکر کیا ہے، اس سے یہ صاف عندیہ ملتا ہے کہ غصہ ور لہریں کناروں کے قابو میں نہیں رہی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہم آئے دن اپنے نوجوانوں کے جنازوں کو کاندھا دیتے رہتے ہیں۔
جو غصہ ہمارے نوجوانوں میں ہے، اس کی تمام تر ذمہ داری کشمیر کے تئیں ہندوستان کی جابرانہ پالیسیوں پر ہی عائید ہوتی ہے لیکن مزاحمتی قیادت پر بھی کچھ ذمہ داریاں عائید ہوتی ہیں جن کی اگر بر وقت نشاندہی نہ کی گئی تو مزاحمتی تحریک کے اس پہا ڑی دریا کا سیلاب سب کچھ بہا لے جائے گا۔ اس تحریک کو صحیح سمت اور صحیح ڈگر دینے کی ذمہ داری مزاحمتی قیادت پر ہے۔ فقط حکومت ہند پر الزامات عائد کرنے سے ہمارے نوجوانوں کی ہلاکتوں پر روک نہیں لگائی جاسکتی۔ اگر ہم واقعی اپنے نوجوانوں کو تباہی و بربادی سے بچانا چاہتے ہیں تو مزاحمتی قیادت پر لازم ہے کہ وہ کوئی ایسی حکمت عملی مرتب کریں جس سے مزاحمتی تحریک کی ہیئت پر کوئی منفی اثر پڑے بغیر نوجوانوں کی سلامتی کو ترجیح دی جائے۔
مزاحمتی قیادت کو اپنی سیاست اور حکمت عملی کو اتنا پُر کشش بنانا ہو گا کہ وہ نوجوان جو غصے کی وجہ سے بندوق اُٹھا رہے ہیں، ایسا کرنے کے بجائے مزاحمتی تحریک میں شامل مختلف سیاسی جماعتوں میں شامل ہو کر اپنے غصے کو مثبت موڑ دے کر تعمیری طور استعمال کر سکیں۔ مزاحمتی قیادت کو نوجوانوں کے لئے اپنے دروازے کھولنے ہوں گے۔ ان سے بات چیت کرنی ہوگی، ان کے غصے کو سمجھنا ہوگا اور پھر اسی غصے کو ایک صحیح سمت دینے کی کوشش کرنی ہوگی۔
میر واعظ کا یہ کہنا کہ اس غصے کی وجہ سے پڑھے لکھے نوجوان بندوق کی جانب مائیل ہو رہے ہیں، بجا ہے لیکن کیا یہ قیادت کی ذمہ داری نہیں کہ وہ ان نوجوانوں کو سمجھانے کی کوشش کریں کہ وہ بغیر کسی تربیت کے بندوق اُٹھا کر ہلاک ہونے کے بجائے مزاحمتی سیاست میں شامل ہو جائیں اور اپنی تعلیم اور ہنر کے بل پر اس تحریک کو مزید فعال بنانے میں اپنا رول ادا کریں۔
لیکن پوری قوم جانتی ہے کہ مزاحمتی قیادت کی طرف سے ایسی کوئی پہل ابھی تک نہیں ہوئی ہے۔ ان نوجوانوں کی ہلاکتوں کی مذمت کرنے، انہیں خراج عقیدت پیش کرنے اور ان کے جنازوں کے جلوسوں سے خطاب کر کے ان کے چُنے ہوئے راستے کو glamorize کرنے سے نوجوانوں کی ہلاکتوں کو روکا نہیں جا سکتا۔
میر واعظ عمر فاروق کشمیر کی ایک قد آور سیاسی شخصیت ہیں۔ان کے خاندان کا کشمیر کے سیاسی ، سماجی اور تعلیمی منظر نامے میں ایک تابناک ماضی رہا ہے۔ وہ عوامی ایکشن کمیٹی کے علاوہ کل جماعتی حریت کانفرنس کے ایک دھڑے کے چیئر مین بھی ہیں۔ ان کے خاندان نے صرف سیاست نہیں کی ہے بلکہ سماجی اور تعلیمی میدان میں بھی ان کا رول قابل ستائش ہے۔ اس لئے ہمارا یہ ماننا کہ میر واعظ تعلیم کی طاقت سے بخوبی واقف ہیں ،بے جا نہیں۔ یہ تعلیم کی اہمیت کا ادراک ہی تھا کہ تحریک مزاحمت میں جدوجہد کرنے کے ساتھ ساتھ اُنہوں نے پی۔ایچ۔ڈی کیا۔ اس لئے میر واعظ پر سب سے بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ پڑھے لکھے کشمیری نوجوانوں کو ہلاکت کی راہ پر چلنے سے روکیں۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ ان نوجوانوں کو مزاحمتی تحریک سے دور کیا جائے، نہیں ایسا ہرگز نہیں ہے۔ ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ یہ مزاحمتی تحریک کا حصہ بنے رہیں اور زندہ بھی رہیں تاکہ زندگی کے مختلف شعبہ جات میں یہ اپنے لوگوں کی خدمت کر سکیں۔
جذباتی نعرے بازی کے بیچ ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ اگر ہمارے پڑھے لکھے نوجوان صرف غصے کی وجہ سے ، بغیر کسی تربیت کے، بندوق اُٹھاتے رہے تو ہمارا آنے والا کل کیسا ہوگا۔ نوجوان ہمارا اثاثہ ہیں۔ یہ اثاثہ ہمارا مستقبل ہے۔ ہمیں فیصلہ کرنا ہو گا کہ کیا ہم اس مستقبل کو خاموشی سے غصے کی بھینٹ چڑھتے دیکھتے رہیں گے یا پھر اس غصے کو ایک پیداواری نہج پر ڈال کر اپنے نوجوانوں کی سلامتی کو ممکن بنانے کی کوشش کریں گے۔
………………………
بشکریہ ہفت روزہ ’’ نوائے جہلم ‘‘ سری نگر