میر سید علی ہمدانیؒ رہنمائے فکر و عمل ولی اللہ

 ڈاکٹر عریف جامعی

فکر اگرچہ رائے اور خیال کو بھی کہتے ہیں، لیکن فکر اصل میں وہ دماغی عمل ہے جو عام سطح پر مسائل حیات کا حل تلاش کرتی ہے اور اعلی سطح پر آفاق اور انفس کے درمیان ایک ایسا رشتہ ڈھونڈتی ہے جس سے ایک طرف عالم رنگ و بو کی تفہیم و تشریح ہوسکے اور دوسری طرف تخلیق انسان کی مقصدیت کو واضح کیا جاسکے۔ فلسفۂ مضحکہ (ابزرڈسٹ فلاسفی) نے اگرچہ اس خیال کو ہی مسترد کیا کہ حیات انسانی معنی خیز ہے، لیکن اس فلسفے کی بنیادیں بھی فکر میں ہی پیوستہ ہیں اور اس فکر سے بھی، تمام افکار کی طرح، اپنی ایک دنیا وجود میں آتی ہے۔
ظاہر ہے کہ فکر جتنی اعلی، مضبوط اور مربوط ہوگی، اتنا اس سے لوگ متاثر ہوں گے اور اسی حساب سے اس پر عمل کیا جائے گا۔ عمل ہی ایک مجرد فکر کو انسانی معاشرے کی ایک ٹھوس حقیقت میں تبدیل کرتا ہے۔ اس کے بعد اسی مضبوطی کے مطابق لوگ اس پر نسلاً بعد نسل تواتر کے ساتھ عمل پیرا ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ منتشر فکر کو کبھی دوام حاصل نہیں ہوسکتا۔ تاہم کبھی کبھار کسی انسان کی پراگندہ فکری کی جولانیاں بھی معاشرے میں ایک وقتی ارتعاش اور اضطراب پیدا کرنے میں کامیاب ہوتی ہے۔ لیکن وقت اور تجربے کی کسوٹی اسے بہت جلد فرسودگی کے کوڑے دان کی نذر کرتی ہے۔
فلاسفہ میں سے ارسطو فکر سے اتنا متاثر تھا کہ اس نے محرک اول (پرائم موور) کو بھی “مجرد فکر” قرار دیا اور اس (محرک اول) کی فکر یہ ہے کہ “سوچ خود کو سوچ رہی ہے” (تھاٹ تھنکنگ اٹسلف) اور اس فکر کا رویہ یہ ہے کہ “یہ سوچ کو سوچتے جارہی ہے” (اٹس تھنکنگ از تھنکنگ آن تھنکنگ)۔ نو افلاطونی فلاسفہ نے فکر کے اس تصور کو اس طرح آگے بڑھایا کہ محرک اول سے یکے بعد دیگرے دس ذہانتوں (فکروں) کا خروج ہوتا ہے۔ تب جاکر عالمی روح وجود میں آتی ہے، جس سے پھر انفرادی روحوں کا ظہور ہوتا ہے اور اسی کے دوران مادی دنیا وجود میں آتی ہے۔ غرض ان فلاسفہ کا یہ ماننا ہے کہ فکر میں بذات خود اتنی قوت یا تاثیر ہوتی ہے کہ مجرد شعور سے مادی دنیا معرض وجود میں آتی ہے، جس کا معتدبہ حصہ باشعور ہوتا ہے۔
کائنات کی باشعور یا ذوی العقول مخلوق ہونے کی وجہ سے انسان کو سب سے اعلی مقام اور حیثیت حاصل ہے۔ ظاہر ہے کہ انسانی عقل، شعور یا فکر ہی متحرک ہوکر ایک نئی دنیا پیدا کرتی ہے۔ دنیائے انسانیت میں سے جس معاشرے کے انسان فکر کو متحرک رکھتے ہیں، وہی انسانی تہذیب و تمدن کو آگے بڑھانے کا سامان کرتے ہیں۔ اور جس انسانی جماعت کی فکر پر جمود طاری ہوتا ہے، وہ تنزل کا شکار ہوتی ہے اور آہستہ آہستہ وہ حیوانوں کی سطح پر آجاتی ہے۔ اس سطح پر پہنچ کر اس کی حیاتیاتی موت واقع ہونے سے پہلے ہی ان کی فکری موت واقع ہوجاتی ہے۔ اس طرح ایسے معاشرے اپنا مقصد حیات کھو جاتے ہیں اور یہ اپنے آپ کو کھانے پینے اور جنس تک محدود کرتے ہیں۔ اس معاشرے کے انسانوں کی حالت کم و بیش بار برداری کے جانوروں کی جیسی ہوجاتی ہے۔
جب کسی معاشرے کے فکری سوتے سوکھ جاتے ہیں، تو اس کے لئے نئی اور تازہ فکر کے جھونکوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ تاہم ایسے تازہ دم فکری جھونکے اس معاشرے کو تبھی نصیب ہوسکتے ہیں جب کہیں پر فکر نو کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر موجود ہو، اور وہاں سے فکر کی تازہ ہوا باد صبا بن کر اس معاشرے کے جھروکوں کے ذریعے داخل ہوکر اس کی مرجھی فکر میں ارتعاش پیدا کرے۔ پرانی فکر اگر مکمل طور پر مردہ ہوچکی ہو تو یہ نئی فکر اس کی جگہ لے لیتی ہے۔ تاہم اگر پرانی فکر میں زندگی کی کچھ رمق موجود ہو تو یہ نئی فکر سے جلا اٹھتی ہے اور نئی فکر کو اپنا راہنما تسلیم کرتے ہوئے اپنے جمود کو توڑ دیتی ہے۔
کشمیر کی بات کریں تو نویں اور دسویں صدی عیسوی میں یہاں کے قدیم مذہبی فکر یعنی شیومت میں ایک قسم کی نشاۃ ثانیہ ہورہی تھی اور یہ بدھمت کو پیچھے دھکیل رہی تھی۔ چونکہ ادویتاواد (مانزم) اس فکر کی بنیادوں میں شامل ہے، اس لئے صوفیاء جیسے بایزید بسطامی (۸۰۴-۸۷۴) اور منصور الحلاج (۸۵۸-۹۲۲) کے فکری دھارے کے ساتھ اس کی کسی حد تک مشابہت ضرور تھی۔ لوئی مسینو (فرانسیسی محقق) کے مطابق منصور الحلاج نے نویں صدی کے اواخر میں ہندوستان سے واپسی پر کئی سال (۸۹۰-۸۹۶) کشمیر میں گزارے۔ ظاہر ہے کہ اس وقت کشمیر میں شیومت اپنے عروج پر تھی، اس لئے ان کا شیومت کے مفکرین کے ساتھ ضرور تبادلۂ خیالات ہوا ہوگا۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ شیومت کے حاملین نے صوفیاء کے نظریۂ ہمہ اوست کو قبول کیا ہوگا۔ تاہم آگے چل کر جس طرح کا احتجاج فرسودہ نظام فکروعمل کے خلاف لل دید (۱۳۲۰-۱۳۹۲) درج کرتیں ہیں، اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وسط ایشیا اور ایران سے مسلسل صوفیاء وارد کشمیر ہوتے رہے اور کشمیر کے اس فکری انقلاب کے لئے زمین ہموار کی جو شاہ ہمدان، میر سید علی ہمدانی (رح) کے ہاتھوں نقطۂ کمال کو پہنچا۔
صوفیاء کرام کے تسلسل کے ساتھ ورود کشمیر کو اس بات سے بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ سید ہمدانی ؒ نے اپنی تشریف آوری سے قبل سید تاج الدین اور سید حسین سمنانی کو کشمیر بھیجا تاکہ اس تسلسل کو برقرار رکھا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ ان صوفیاء نے فکری اور عملی دونوں محاذوں پر اس انقلاب عظیم انقلاب کے لئے زمین ہموار کی جو سید ہمدانی ؒ کے ہاتھوں رونما ہوا۔ واضح رہے کہ سید کے ہاتھوں انجام پانے والا یہ انقلاب، جس کو طلسماتی اور پر اسرار رنگ دینے کی کوشش کی جاتی ہے، اصل میں اس راسخ فکر کا عملی شاہکار ہے جو آپ نے توحید کے اس شجرہ طیبہ سے حاصل کی تھی جو سیدنا آدم ؑ سے شروع ہوئی تھی اور جس کی تکمیل رسالتمآبؐ کے مبارک ہاتھوں سے ہوئی۔ اس فکر کے بارے میں قرآن کا برجستہ اعلان ہے: “کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے پاکیزہ بات کی مثال کس طرح بیان فرمائی، مثل ایک پاکیزہ درخت کے جس کی جڑ مضبوط ہے اور جس کی ٹہنیاں آسمان میں ہیں۔” (ابراہیم، ۲۴)
سید ہمدانی ؒکی فکری بالیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سورہ الفاتحہ، جسے قرآن “بار بار دہرائی جانے والی سات آیتیں” (الحجر، ۸۷) قرار دیتا ہے، کی تشریح و توضیح کے دوران آپ فلسفیانہ اور صوفیانہ فکر کا کچھ اس طرح کا مرقع پیش کرتے ہیں جو عوام اور خواص دونوں کے لئے راہنمائی کا مینار نور ثابت ہوتا ہے۔ سید ہمدانی ؒ الفاتحہ کی تشریح اس طرح شروع کرتے ہیں: “الحمد للہ کہتے ہی ذات لامنتائی کے انعام و افضال ذرات وجود میں جاری و ساری پائے اور کارگاہ تقدیر کے کار گذاروں کو دیکھیے کہ کس طرح رب العالمین کے پردہ میں مخلوق کی تربیت میں مشغول ہیں۔” چونکہ ذات باری تعالی ہی توصیف و تحمید کی سزاوار ہے، اس لئے جب بندے کی زبان حمد باری سے تر ہوجاتی ہے تو وہ باقی مخلوقات کے ساتھ ہم آہنگ ہوجاتا ہے جو ہر وقت رب کے شکر و سپاس میں مصروف رہتی ہیں۔ تسبیح و تحمید کے اس زیروبم سے جیسے کائنات وجد میں آجاتی ہے۔ ظاہر ہے اس سے فرد کی بڑائی کا احساس مٹ جاتا ہے۔ عاجزی اور انکسار پیدا ہوتے ہی بندے کے لئے حقیقت کا انکشاف ہونے لگتا ہے، جس سے اس کی حقیقی تربیت شروع ہوجاتی ہے۔
سید ہمدانی ؒ آگے فرماتے ہیں کہ “پھر رحمانیت کے ساحل پر رحمت کی شراب طہور ساقی الرحمٰن الرحیم کے دست کرم سے نوش جان کرے اور پھر اس شراب طہور کے مخموروں کی موج ارادت دیکھے اور دریائے وحدت میں قدم رکھے۔” یعنی بندہ سب مخلوقات سے دامن جھاڑ کر خالق کی چوکھٹ پر آتا ہے اور راز و نیاز کرنے سے پہلے ایک قسم کا “مراقبہ” کرتا ہے تاکہ اس کی ذہنی اور قلبی حالت اس سطح پر آجائے جہاں وہ رحمت کے اس محیط بے کراں کی اتھاہ وسعتوں میں گم ہوجائے۔ ظاہر ہے کہ بندے کی خدا کے آگے یہ حالت اس حدیث کی تشریح بن جائے گی جہاں رسول اللہؐ نے احسان کو اس طرح بیان فرمایا ہے: “آپ اللہ کی اس طرح عبادت کریں جیسے کہ آپ اسے دیکھ رہے ہوں، کیونکہ اگر آپ اسے دیکھ نہیں رہے، وہ پھر بھی آپ کو دیکھ رہا ہے۔” (حدیث جبرائیل)
اس کے بعد سید ہمدانی (رح) فرماتے ہیں کہ “جب وجود موہوم اور حجاب دوئی درمیان سے اٹھ جائے اور بحر ازل بحر ابد سے ہمکنار ہو تب مٰلک یوم الدین کی حقیقت کا مشاہدہ کرے۔” ظاہر ہے کہ روز قیامت خدا اور بندے کے درمیان حائل پردہ اٹھ جائے گا، کیونکہ وہ دن ہی ایسا ہوگا کہ انسان رب کے سامنے نہ صرف کھڑا ہوگا (المطففین، ۶) بلکہ بندہ رب کی طرف نگاہ امید بھی لگائے گا (القیامہ، ۲۳)۔ سید ہمدانی ؒ فرماتے ہیں کہ کچھ ایسی ہی حالت عبد کی اس وقت ہونی چاہئے جب وہ رب کے سامنے نماز کے لئے کھڑا ہوجائے۔ تاہم اس حالت میں بھی بندے کو یہ احتیاط برتنا ہوگی کہ حالت سکر کو قابو کرکے حالت صحو کی طرف واپس جائے۔ اس ضمن میں سید ہمدانی ؒ فرماتے ہیں کہ “سکر و محویت کے اس عالم میں جب حکمت کے سیاح اسے گریبان سے پکڑ کر صحو کے ساحل پر ڈال دیں تو ہوشیار ہوکر بندگی کے لئے کمر بستہ ہوجائے، اور ایاک نعبد کہے۔” اہل حکمت کی طرف اشارہ کرکے سید ہمدانی ؒ باور کرانا چاہتے ہیں کہ دین میں حکمت سے مؤمن بے نیاز نہیں ہوسکتا۔ ظاہر ہے کہ با ہوش و حواس ہی عبادت کا حق ادا ہوسکتا ہے، اس لئے حالت سکر میں عبادت بے معنی ہوجاتی ہے۔ اس کا باضابطہ اعلان قرآن یوں کرتا ہے: “اے ایمان والو! جس وقت تم نشہ میں ہو تو نماز کے نزدیک نہ جاؤ یہاں تک کہ سمجھ سکو کہ تم کیا کہہ رہے ہو۔” (النساء، ۴۳) اس کے بعد سید ہمدانی ؒ فرماتے ہیں کہ “پھر توفیق اور عنایت الہی سے وایاک نستعین کا نغمہ الاپے۔” ظاہر ہے کہ عبادت اسی صورت میں بامعنی ہوسکتی ہے جب استمداد بھی رب تعالی سے کی جائے۔ اس لئے بندہ خدا کی مدد کا مستحق فقط اس کی توفیق اور عنایت سے ہوسکتا ہے۔ بندہ یہ مقصد کامل عقیدت سے ہی حاصل کرسکتا ہے۔
جب اس انداز میں بندہ خود کو رب تعالی کے سامنے ڈال دے تو اس کے لئے روحانیت کے اعلی درجات حاصل ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ اس سلسلے میں سید ہمدانی ؒ فرماتے ہیں: “جب امواج ترقی اسے حضیض بشری سے سر اوقات جبروتی میں لے جائیں اور جاذبۂ طبیعت پر فضل رحمانی حاصل کرے تو اھدنا الصراط المستقیم پڑھے۔” رب کے سامنے یہ التجا دراصل روحانی اور اخلاقی ترفع کے لئے ہی کی جاتی ہے، کیونکہ یہ دعا کرتے ہوئے بندے کی نظر اس راہ پر ہوتی ہے جس پر مؤمنین، صدیقین، شہداء اور صالحین چلا کیے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سید ہمدانی ؒ اس باپت فرماتے ہیں: “پھر عالم ارواح کے ساتھیوں سے مل کر شرف خطابت حاصل ہو تو صراط الذین انعمت علیھم ادا کرے۔” چونکہ راہ ہدایت کے بغیر تمام راستے کجروی پر مبنی ہیں جو انسان کو گمراہ کرکے رب کے غضب کا شکار کرتے ہیں، اس لئے سید ہمدانی ؒ فرماتے ہیں: “جب راندۂ بارگاہ الہی اور محروم مخذول انسانوں کو دیکھے جو قہر و غضب کے طوق و سلاسل میں گرفتار ہیں تو ان سے برأت کے اظہار میں غیر المغضوب علیھم علا الضالین کہے۔”
میر سید علی ہمدانی (رح) کا ماننا ہے کہ سورہ الفاتحہ کو اس صورت میں ادا کرنے سے ہی بندے کی فکر، کلام اور عمل ہم آہنگ ہوجائیں گے اور وہ حقیقت کا ترجمان بن کر راہ حق کے حقیقی مسافر کا کردار ادا کرسکتا ہے۔
(مضمون نگار گورنمنٹ ڈگری کالج، سوگام، لولاب میں اسلامک اسٹڈیز کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں)
رابطہ۔9858471965