حضرت میر سید عزیز اللہ حقانی ؒکی ولادت ۱۱؍ ربیع الثانی ۱۲۸۷ھ مطابق ۱۸۱۶ء کو ہوئی۔ آپؒ کے والد گرامی حضرت میر سید شاہ محی الدین حقانیؒ خاندان ِحقانیہ میں نمونۂ اسلاف تھے۔ جن ایام میں آپ تولدہوئے وہ کشمیر کی انتہائی غلامی کا زمانہ تھا ۔اُس وقت ملک ِکشمیر سکھاشاہی کے بعد ڈوگرہ راج میں پابہ زنجیر تھااور ملک سیاسی ، سماجی، دینی اور علمی طور ناگفتہ بہ حالات کے بھنور میں پھنسا ہواتھا۔ ان پُر آشوب ایام میں حضرت حقانیؒ بہت سارے مصائب و مشکلات کا سامنا کرنے کے باوجود اپنے قلم اور فکر کی توانائی کے بل پر تابندہ ستارے کی مانند آسمانِ علم وا دب پر اور میدانِ دعوت وارشادمیں چمک اُٹھے ۔ آپ بیک وقت عالم، صوفی ، ادیب ، مفکر ، مصلح اور مورخ تھے۔ آپ نے شعر و ادب، علم و عرفان، تاریخ و جغرافیہ میں اپنے زریں قلم سے لافانی شاہ کار تخلیق کئے ۔ یہ عظیم سرمایہ علماء و عرفاء کے ساتھ ساتھ عوام و خواص کے لئے فوائد کا گنج ہائے گراں مایہ ہے۔ آپ کی تصانیف میںتاریخِ ِعالم ، دیوانِ حقانیؔ’، ممتاز بے نظیر، جواہر عشق اور گلدستۂ بے نظیر، روضت الاشہداء قابل ذکر ہیں۔ تاریخ نویسی میںآپ کی شاہ کار تصنیف’’ تاریخ عالم‘‘ (تحفہ الکبریٰ) میں حضرت آدم ؑ سے لے کر تاریخ ِا سلام اور مسلم سلطنتوں تک کا حال احوال درج ہے۔ موصوف نے تاریخ ِ کشمیر بھی تفصیلاً قلم بند کی۔ اس معرکتہ الآراء تصنیف میں یہاں کی جغرافیائی تصویر بخوبی کھینچی گئی ہے ، نیز کشمیر کے نباتات و جمادات، یہاں کی مٹی ، زمین او ر اس کے خواص، پیداوار، جڑی بوٹیوں اور پیڑ پودوں کے طبی فوائد، چرند وپرند ، باغات وکوہسار، عوام کے پیشے، پیشوں کے لوازمات وغیرہ سے بحث کی گئی ہے ۔تاریخ نویسی میں آپ نے روایتی واقعات نگاری سے ہٹ کر اپنی جدت طرازی سے اس فن کو ایک نئی جلاّبخشی۔ ان کا قلم بادشاہوں یا حاکموں اور اُن کے محل خانوں سے باہر عوام اور عوام سے متعلق حالات و کوائف کو تاریخ میں سمیٹتا رہا۔سماجی تاریخ کو حکمرانوں کی تاریخ پر ترجیح دینے کی اسی سوچ کا نتیجہ ٔ فکر ’’سیلاب نامہ‘‘، ’’نار نامہ ‘‘، ’’درویش نامہ‘‘ جیسے رسائل ہیں۔ چونکہ تاریخ ِکشمیر کا یہ دور حضرت حقانی ؒنے بچشم خود دیکھا، اس لئے اسی مناسبت سے زیر بحث تاریخ کو محققانہ حیثیت حاصل ہے۔ چونکہ کشمیر میں یہ دور سیاسی اتھل پتھل اور تنزل سے لبریزتھا لیکن اس کی ہوبہوعکاسی جس ڈھنگ سے مذکورہ تاریخ میں ہوئی ہے ،وہ حقانیؒ کا ہی خاصہ ہے۔ آپ نے اپنے انسابِ سادات اور اربابِ ولایت کے بارے میں’’لطائف الحقانی ‘‘نام سے سوانح حیات بھی لکھی جس میں بعض عظیم شخصیات کے حالاتِ زندگی ،ان کے پیرومرشد ، خلفاء و غیرہم کا تذکر ہ مو جود ہے ۔ انہوں نے’’ برہان المسلمین‘‘ تحریر کر کے ا پنے زمانے کے اہم دینی معاملات کی علمی توضیحات پیش کی ہیں۔ ’’روضتہ الشہداء ‘‘ کے عنوان سے آپ نے مرثیہ کے صنف میں طبع آزمائی کی ہے ، البتہ واقعات کو فلسفیانہ اور صوفیانہ پیر ائے میں پیش کیا ہے ۔حضرت حقانی ؒکا بحیثیت ایک مایہ ناز نعت گو شاعر بھی اپناایک یکتا ومنفردمقام ہے۔ آپ کی تصانیف کی تعداد کم و بیش بیس ہے لیکن یہ تصانیف ریاست کے ادبی اورثقافتی اداروں کی سرد مہری کی وجہ سے ابھی تک اشاعت پذیر نہ ہوئیں۔اُمید کی جانی چاہیے کہ حضرت کے رشحات قلم کو افادۂ عام کے لئے دیر سویر زیورِ اشاعت سے آراستہ کیا جائے گا۔