کولگام//ملہ پورہ میر بازار قاضی گنڈ میںگذشتہ رات جنگجوؤں اور پولیس کے درمیان ہونے فائرنگ کے تبادلے میں زخمی ہونے والا ایک اور شہری چل بسا،اس طرح اس واقعہ میں مرنے والوں کی تعداد5ہوگئی ہے۔کل رات ہی ایک پولیس کانسٹیبل،دو شہری اور ایک جنگجو مارے گئے تھے۔ حملے میں پولیس اہلکار رقیب کے علاوہ ایس پی ائو فاروق احمد اور عام شہری غلام حسن زخمی ہوئے ہیں جو اس وقت صدر اسپتال اور آرمی اسپتال 92 بیس کیمپ میں زیر علاج ہیں ۔دریں اثناء جنگجو کے آبائی علاقے کیموہ اور ملحقہ دیہات میں کل ہڑتال رہی جبکہ جنگجو کی نمازہ جنازہ میں ہزاروں لوگوںنے شرکت کی۔اس موقعہ پر قریب چار جنگجو نمودار ہوئے اور انہوں نے اپنے ساتھی کی یاد میںہوائی فائرنگ کی ۔مارے گئے جنگجو کی شناخت فیاض احمداشورعرف سیٹھا ساکن ریشی پورہ کیموہ کولگام کے بطور کی گئی۔پولیس کا کہنا ہے کہ فیاض اگست 2015 ء میں جموں سری نگر شاہراہ پر ضلع ادھم پور میں بی ایس ایف کے قافلے پر ہونے والے جنگجویانہ حملے میں ملوث تھا۔اس پر الزام تھا کہ اس نے حملہ انجام دینے والے جنگجوؤں کو ٹرک کے ذریعے ادھم پور پہنچایا۔ قومی تفتیشی ایجنسی (این آئی اے) نے اس پر دو لاکھ روپے کا انعام مقرر کیا تھا۔ ادھم پورہ حملے کے بعد طرفین کے مابین ہونے والی جھڑپ میں ایک جنگجو کو ہلاک جبکہ ایک پاکستانی جنگجو نوید کو زندہ گرفتار کیا گیا تھا۔مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ ادہم پور حملے کے فوراً بعد جب فیاض کے گھر پر چھاپے ڈالے گئے تو وہ روپوش ہوگیا۔وہ اسی ٹرک کے ساتھ کنڈیکٹر تھا جس کا ڈرائیور پہلے ہی گرفتار ہوا ہے۔لوگوں نے بتایا کہ قریب ڈیڑھ سال سے فیاض کے بارے میں کسی کو معلوم نہیں تھا کہ وہ کہاں ہے،لیکن ایک ماہ قبل فیس بک پر جنگجوئوں کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں فیاض کو بھی دیکھا گیا تھا۔دریں اثناء جب فیاض کی ہلاکت پرضلع کولگام کے کچھ حصوں میں اتوار کو مکمل ہڑتال کی گئی جس کے دوران لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے لشکر طیبہ جنگجو فیاض احمد کے جلوس جنازہ میں شرکت کی۔ کیموہ اور اس سے ملحقہ علاقوں میں دکانیں اور تجارتی مراکز بند رہے جبکہ سڑکوں پر گاڑیوں کی آمدورفت بند رہی۔ مہلوک لشکر طیبہ جنگجو فیاض کو اپنے آبائی علاقہ کیموہ میں ہزاروں لوگوں کی موجودگی میں سپرک خاک کیا گیا۔ لوگوں نے اس موقعے پر کشمیر کی آزادی کے حق میں شدید نعرے بازی بھی کی۔ لشکر طیبہ سے وابستہ کچھ جنگجوؤں نے مہلوک کمانڈر کے جلوس جنازہ میں نمودار ہوکر اُن کی میت کو بندوقوں کی سلامی دی۔ دوسری جانب سری نگر جموں شاہراہ پر واقع میر بازار میں ایک عجیب قسم کی خاموشی چھا گئی ہے۔ شاہراہ کے دونوں اطراف کسی بھی طرح کے احتجاجی مظاہرے یا پتھراؤ کے واقعات کو روکنے کے لئے سیکورٹی فورسز اور ریاستی پولیس کے اہلکاروں کی ایک بڑی تعداد تعینات کی گئی ہے۔ اگرچہ کسی بھی تنظیم یا جماعت نے ہڑتال کی کال نہیں دی ہے، تاہم علاقہ میں گذشتہ رات کی خونین معرکہ آرائی کے پیش نظر بیشتر دکانیں اور تجارتی مراکز بند رہے۔ علاقہ میں بہت ہی کم گاڑیاں چلتی ہوئی نظر آئیں۔