ڈاکٹر غلام قادر لون، حدی پورہ
29؍ اپریل 2024 استاد گرامی محترم پروفیسر ڈاکٹر عبید اللہ فراہی صاحب مرحوم کی وفات کو تین سال ہوگئے۔ وہ میرے استاد ہی نہیں، میرے مربی اور محسن بھی رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ میری خوش نصیبی یہ تھی کہ والدین حد درجہ دین دار تھے۔ انہوں نے میری اخلاقی تربیت اس انداز سے کی ہے کہ آج بھی اس خطاکار کو جھوٹ اور مکروفریب سے اس قدر نفرت ہے کہ اس کے مقابلے میں بڑے سے بڑا نقصان اٹھانا آسان معلوم ہوتا ہے۔ زبان سے کسی کو دشنام نہیں دے سکتا، چاہے زبان ہی کیوں نہ کٹ جائے ۔میرے والدین، اللہ تعالیٰ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے کی دعائے نیم شبی اور گریۂ سحری کا ثمرہ تھا کہ زندگی میں بہترین استادوں سے فیض یاب ہونے کے مواقع نصیب ہوئے۔ اساتذہ کرام میں استاد گرامی ڈاکٹر فراہی صاحب مرحوم اپنی مثال آپ تھے۔ ان کی خودداری، غیرت، صاف گوئی، اصول پسندی اور علم دوستی سے میں بہت متاثر ہوا ہوں۔
قبلہ والد صاحب مرحوم نے بچپن میں مولانا شبلی کی ‘الفاروق’ لا کر دی تھی کہ اس کا مطالعہ کرو۔ میں اس وقت پانچویں جماعت میں پڑھ رہا تھا۔ سیرت طیبہ اور صحابہ کرام کے واقعات وہ مجھے اپنی زبان سے سناتے تھے۔ الفاروق کے مطالعے ہی کا ثمرہ ہے کہ آج تک مولانا شبلی کے سحر سے آزاد نہ ہوسکا ۔
عظیم مصنف کی ایک ایک تصنیف پڑھ ڈالی۔ ’’سیرت النبی‘‘ دیکھی تو ان کی عظمت کے نقوش دل پر مرتسم ہوگئے ۔استاد گرامی سے ناچیز کے قلبی تعلق کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ وہ مولانا فراہی اور مولانا شبلی کے وارث ہی نہیں بلکہ ان کے فکری ورثے کے امانت دار بھی تھے۔
استاد محترم ڈاکٹر فراہی صاحب مرحوم کا پورا نام عبید اللہ بن حماد بن حمید الدین فراہی تھا ۔جد امجد مولانا حمید الدین فراہی قرآنیات کے ماہر کی حیثیت سے مشہور ہیں۔
استاد محترم ضلع اعظم گڑھ (یو۔ پی) کے ایک گاؤں فریہہ میں 13؍ دسمبر 1943ء کو پیدا ہوئے۔ انہوں نے دینی تعلیم مشہور درسگاہ مدرسۃ الاصلاح سرائے میر، اعظم گڈھ سے حاصل کی۔ 1964ء میں انہوں نے لکھنؤ یونیورسٹی کے اورینٹل اسٹڈیز سے فاضل ادب کا امتحان پاس کیا ۔چار سال بعد اسی یونیورسٹی سے گریجویشن کیا ۔اس کے بعد انہوں نے لکھنؤ یونیورسٹی ہی سے 1970ء میں عربی ادب میں ایم اے کیا۔ علمی تحقیق سے انہیں فطری مناسبت تھی۔ پی ایچ ڈی میں داخلہ ہوا تو عباسی دور کے دو مشہور عرب شعراء بشار بن برد اور ابو نواس کے تقابلی مطالعے کو تحقیق کا موضوع بنایا اور عربی میں اپنا مقالہ تحریر کر کے 1973ء میں پی ایچ ڈی کی تکمیل کی۔
15 ستمبر 1972 ء کو استاد محترم لکھنؤ یونیورسٹی کے شعبہ عربی میں لیکچرر تعینات ہوئے۔ اس وقت ان کی پی ایچ ڈی تکمیل کے مراحل میں تھی۔ اس کے بعد وہ اسی شعبے میں ریڈر ہوگئے۔ چند سال بعد وہ پروفیسر ہوگئے۔ شعبہ عربی کے صدر کی سبک دوشی کے بعد استاد محترم نے صدر شعبہ کے عہدے کا چارج سنبھال لیا۔ 30؍ جون 2006ء کو دو سال کی توسیع کے بعد اسی عہدے سے ریٹائر ہوگئے۔ سبک دوش ہونے کے بعد استاد گرامی کے 15 سال بڑے بار آور ثابت ہوئے۔ انہوں نے مولانا حمید الدین فراہی کے مسودات کی ترتیب و تدوین پر اپنی توجہ مرکوز کی۔ بعض شائع شدہ رسائل کو نئے سرے سے مدوّن کیا۔ تادم وفات اپنا سارا وقت انہیں علمی مصروفیات میں گزارا ۔یہاں تک کہ 29 ؍اپریل 2021 ء کو داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔
استاد محترم ایم اے عربی میں ہمیں دو سال 1978ء تا 1980ء پڑھاتے رہے۔ وہ کلاس میں اس قدر سنجیدہ ہوتے تھے کہ کسی لڑکے کو ان سے بات کرنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی۔ کلاس میں ایک مرتبہ انہوں نے میرے ہاتھ میں ایک انگریزی کتاب دیکھی جو فلسفے کے موضوع پر تھی۔ یہ دیکھ کر انہوں نے مجھ سے کہا کہ آپ سارتر کو پڑھیں۔ ایم اے کرنے کے بعد میں صدر شعبہ عربی استاد مکرم پروفیسر ڈاکٹر محمد رضوان علوی صاحب(اللہ انہیں جنت الفردوس میں جگہ دے )سے گزارش کی کہ میں پی ایچ ڈی کرنا چاہتا ہوں۔ وہ بہت خوش ہوئے اور پوچھا کہ آپ کن کے انڈر میں پی ایچ ڈی کرنا پسند کریں گے۔ میں نے استاد محترم ڈاکٹر فراہی صاحب کا نام لیا۔ چنانچہ میں نے پی ایچ ڈی میں داخلہ لیا ۔یونیورسٹی سے ڈالی گنج جاتے ہوئے استاد محترم کے ساتھ چلا۔ انہوں نے سیتا پور روڈ پر واقع اپنی رہائش گاہ پر بلایا جو “نسیم منزل” کے نام سے موسوم تھی۔ میں جب پہلی دفعہ ان کی خدمت میں گیا تو وہ عربی سکھانے کے لیے انگریزی میں کتاب لکھ رہے تھے۔ کتاب میں عربی زبان سیکھنے کے لیے آسان اور جدید طریقے اختیار کیا گیا تھا ۔انہوں نے چائے منگوائی اور مجھ سے پوچھا کہ حَسِبَ کی انگریزی کیا آئے گی؟ میں نے کہا میرے خیال میں Deem بہتر رہے گا۔ انہوں نے بیروت سے چھپی زخیم عربی انگریزی لغت کھولی تو حَسِبَ کے مقابلے میں سب سے پہلے Deem کا لفظ نکلا۔ وہ بہت ذہین کہہ کر مسکرائے ۔اس کتاب کے بارے میں استاد محترم سے بعد میں پوچھا کہ اس کا مسودہ کہاں ہے؟ تو کہا کہ ممبئی کی ایک پبلشر لے گئے تھے، اس کے بعد اس کے بارے میں کچھ پتہ نہ چلا ۔
میں نے پی ایچ ڈی تھیسس کا موضوع کئی بار بدلا ۔جمال الدین افغانی پر کافی مواد جمع کیا۔ مگر بعد میں اسے تبدیل کیا ۔شاہ ولی اللہ دہلوی پر مضمون تیار کیا تو استاد محترم اسے دیکھ کر ہنسے اور اپنے دوستوں سے اس کا ذکر کیا ۔بعد میں یہ موضوع بھی چھوڑ دیا اور انگریزی میں شیخ اکبر محی الدین ابن عربی پر Synopsis تیار کی۔ استاد محترم کی خدمت میں پیش کی۔ ان موضوعات پر میں نے زیادہ دیر زیادہ تر لٹریچر میں نے مادر علمی گورنمنٹ ڈگری کالج کی لائبریری میں پڑھا تھا۔ اس کے بعد لکھنؤ یونیورسٹی میں داخلہ لیا تو دارالعلوم ندوۃ العلماء کے کتب خانے میں جب بھی فرصت ملتی جاکر بیٹھ جاتا۔ حسن انتظام اور صفائی ستھرائی کے لحاظ سے یہ کتب خانہ دوسرے کتب خانوں سے ممتاز تھا ۔پی ایچ ڈی میں داخلہ کے بعد میرا زیادہ تر وقت لائبریری میں گزرتا۔مغرب کے بعد میرا معمول تھا کہ ہر روز نسیم منزل پہنچوں اور استاد محترم کو دن بھر کے مطالعے سے آگاہ کروں۔ بعض اوقات رات کے 10بجے تک مختلف موضوعات پر بحث ہوتی۔ اگر کبھی ناغہ ہوتا تو دوسرے دن یونیورسٹی میں اپنے کام سے فارغ ہونے کے بعد این ڈی ہاسٹل میں میرے کمرے پر تشریف لاتے کہ کل آپ کیوں نہیں آئے۔ ہمارا کمرہ، کمرہ نمبر 41 بہت مشہور تھا۔ استاد محترم کی تشریف آوری سے میری عزت افزائی ہوتی تھی۔ نسیم منزل جانے کا معمول برسوں جاری رہا۔ اس کے بعد جب استاد محترم یونیورسٹی میں الاٹ کی گئی قیام گاہ میں منتقل ہوئے تو وہاں بھی یہی معمول رہا ۔استاد محترم کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ علم دوست تھے۔ میں نے پی ایچ ڈی کے لیے بعد میں تصوف کا موضوع چنا۔ مغرب بعد روز تصوف کے مختلف پہلوؤں پر بات ہوتی۔ میں نے ان سے بار بار اصرار کیا کہ آپ تصوف کے موضوع پر ایک کتاب لکھیں۔ ان کا علمی ذوق بلند تھا ۔چنانچہ چند سال تصوف کا معروضی مطالعہ کرنے کے بعد انہوں نے ایک کتاب تیار کی، جو جنوری 1987 ء میں ادارۂ تحقیق و تصنیف علی گڑھ سے‘ تصوف ایک تجزیاتی مطالعہ’ کے عنوان سے شائع ہوئی۔ اس کتاب کو علمی حلقوں میں سراہا گرایا۔ اردو کے مشہور نقاد پروفیسر خورشید الاسلام نے اس کتاب کو بہت پسند کیا تھا ۔استاد گرامی کا بڑا پن یہ تھا کہ انہوں نے کتاب کے پیش لفظ میں ذکر کیا کہ یہ کتاب میرے اصرار پر لکھی گئی ہے۔ حالانکہ میں ان کا ادنیٰ شاگردہوں۔(جاری)۔۔