ڈاکٹر الطاف انجم
گزشتہ مہینے یعنی نومبر ۲۰۲۳کے کسی دن میں مجھے ڈاک سے پرتپال سنگھ بیتاب کی خودنوشت ’’میرے حصے کی دنیا‘‘موصول ہوئی۔ یہ تحفہ میرے لیے کسی نعمتِ غیر مترقبہ سے کم نہیں ہے کیوں کہ سونحی ادب پر مشتمل تحریریں میری دلچسپی کا باعث ہیں۔ میں نے کتاب موصول ہوتے ہی پہلی فرصت میںاول تا آخر اس کا مطالعہ کیا۔
خودنوشت نگار کی زندگی کے ماہ و سال کا ذکر بڑی خوبی سے کتاب میں پیش ہوا ہے ۔یہاں یہ بتانا چاہوں گا کہ موصوف کی ابتدائی زندگی کے شام و سحر اُسی کشمکش میں گزرے ہیں جو تقسیمِ برصغیر کے بعد ہر ایک انسان کا مقدربن گئی تھی۔ اس کتاب سے پہلے خالد حسین کی خود نوشت ’’میں زندہ آدمی ہوں‘‘کا مطالعہ کرنے کے دوران بھی اسی طرح کی روداد نظر سے گزری۔ کہنے کا مطلب ہے کہ ہر ایک صاحبِ فن نے نہایت حقیقت پسندی کے ساتھ اپنی زندگی کو پیش کیا۔ اس خود نوشت کے مطالعہ کے دوران بار بار قاری کو اس بات کا شدت سے احساس ہوتا ہے کہ بیتاب کو انتظامی عہدوں پر کام کرتے ہوئے نظر اندازکیا گیا جس کا اظہار انہوں نے بھی جستہ جستہ کیا ہے۔مجھے اس موقع پر ساحر لدھیانوی کے یہ دو شعر بے طرح یاد آتے ہیں اہلِ دل اور بھی ہیں ،اہلِ وفا اور بھی ہیں
ایک ہم ہی نہیں دنیا سے خفا اور بھی ہیں
ہم پہ ہی ختم نہیں یہ مسلکِ شوریدہ سری
چاک جگر اور بھی ہیں ،چاکِ قبا اور بھی ہیں
یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ اقلیتوں کے مسائل میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ اس ضمن میں انہیں اپنی تہذیبی اور مذہبی شناخت کو منوانے کے لیے بڑی کوششیں کرنا پڑتی ہیں ۔ یہ مسئلہ ہمارے ملک سے زیادہ برصغیر اور ایشیا کے دوسرے ملکوں میں قدرے سنگین ہے۔
آپ نے اس خودنوشت کی ابتدا میں ہی لکھا ہے کہ :
’’میں حلفاً بیان کرتا ہوں کہ میں اپنی سوانح عمری میں اپنی زندگی کی تمام تر تلخ و تُرش سچائیاں شامل نہیں کرسکا ۔ میں کوئی مہاتما نہیں ہوں ۔ میں سچ مچ سب سچ لکھنے کی جرأت نہیں کرسکا۔ لیکن میں یہ بھی حلفاً بیان کرتا ہوں کہ میں نے اپنے سوانح عمری میں کچھ بھی جھوٹ یا غلط نہیں لکھا ہے ‘‘
لیکن مجھے دورانِ مطالعہ کئی بار اس بات کا احساس ہوا ہے کہ آپ نے حقائق کی پردہ پوشی کی کوشش کی ہے ۔ہوسکتا ہے کہ اس میں کوئی مصلحت ہو لیکن قاری کو بین السطور میں کچھ باتوں کاادراک تو ہوتا ہے مگر ساری حقیقت سے وہ بے بہرہ ہی رہتا ہے۔ البتہ ایک بات اس کتاب کی مجھے بہت پسند آئی وہ یہ کہ آپ نے اپنے مافی الضمیر کے اظہار کے لیے اکثر مقامات پر اپنے ہی اشعار کو پیش کیا ہے ۔ اُس سے قاری آپ کی شاعرانہ ہنرمندی اور فکری ندرت کا بھی قائل ہوجاتا ہے۔اس خودنوشت کا اسلوب سادہ اور رواں ہے اور اعراب کے استعمال نے اس کے متن کی آرائش و زیبائش کا کام کردیا ہے۔یہ آپ کے اسلوب کی انفرادیت بھی ہے اور شناخت بھی ۔اس جگہ پر آپ ہی کے شعر کا حوالہ دینا چاہوں گاکہ؎
اپنی خاطر ہم نے اِک ننھا جزیرہ چُن لیا
اور بحرِ بیکراں کو بیکراں رہنے دیا
کچھ مزاج اپنا ہی تھا بیتابؔ اُن سب سے جدا
بس اکیلے چل دئے ہم، کارواں رہنے دیا
میں اس خودنوشت کی اشاعت کے لیے بیتاب صاحب کو صمیمِ قلب سے مبارک باد پیش کرتا ہے کہ ایک کہنہ مشق اور معتبر شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ انہوں نے ایک نثر نگار کی حیثیت سے بھی اپنے ادبی وجود کو منوایا ۔ ادھر کچھ برسوں سے جموں میں خالد حسین کی خودنوشت ’’میں زندہ آدمی ہوں ‘‘سامنے آئی ہے اور حال ہی میں مشتاق احمد وانی کی ’’خارستان کا مسافر ‘‘بھی ادبی حلقوں میں زیرِ بحث رہی ہے ۔ امید ہے کہ صوبہ جموں میں اُردو کا یہ کاروں جاری رہے گا۔ میں ممنون ہوںجموں یونیورسٹی کے ڈاکٹر پی ۔پی ۔ سنگھ صاحب کا،جنہوں نے مجھ تک آپ کی اس خودنوشت کی رسائی کو ممکن بنایا۔
رابطہ۔نظامتِ فاصلاتی تعلیم ، جامعہ کشمیر
ای میل۔[email protected]