نصیب والی ہے وہ بیٹی جس کے سر پر والدین کا سایہ تادیر قائم رہے اور خوش قسمت ہے وہ نواسہ ، نواسی جن کا بچپن نانا، نانی کی گود میں گزرے۔ وہ بے لوث محبت جس کا کوئی بدل نہیں، وہ انمول شئے جس کا کوئی بدل نہیں۔ میرے مرحوم ابو کی زندگی اور اُن سے جڑی زریں یادیں ایک کارواں کی صورت میں ہمیشہ میرے ہم سفر ہیں ۔ یہ پاکیزہ یادیں میرے ساتھ میرے تمام اہل خانہ کے لئے اساس ِحیات ہیں ۔بہر حال اللہ کی مرضی کے سامنے ہماری خواہشیں ہیچ ہیں۔ ہمارے والد ماجد۔۔۔ منظور الفتح وانی صاحب آف پٹن کشمیر۔۔۔ کو اس دارفانی سے وداع لئے ہوئے چھ سال گزر گئے مگر یہ وقفہ بالکل ہی مختصر محسوس ہوتا ہے، یوں لگتا ہے کہ جیسے گزشتہ کل کی ہی تو بات ہو کیونکہ ان کی سب یادیں ہمارے سامنے ترو تازہ ہیں اوران کی پر چھائیاں ہمارے آگے پیچھے، دائیں بائیں محسوس ہوتی ہیں ۔
اُن کے دنیا چھوڑنے کا رنج و غم ، اس درد سے ملا ہوا زخم ابھی مندمل نہیںہوسکاہے اور سچ کہیے تو جب جب زندگی میں کوئی خوشی آتی ہے تو اُن کی کمی کا احساس بڑھ جاتا ہے کہ ساری خوشیاں پھیکی پڑھ جاتی ہیں ۔ تصور کرتی ہوں کہ اگر ابو ہوتے تو اپنے آپ کو نانابنتے دیکھ کر انہیں کیسا لگتا ؟کتنا سہانا منظرہو تا اگر ننھی عائشہ کے نانو انہیںگود میں پیار کر تے ، چھاتی پر سلا تے، بالوں کوسجاتے عائشہ اِک ننّھی سی جان ہے جو بدقسمتی سے نانو کے پیار کا حصہ نہ پاسکی۔ قسمت والے ہیں وہ بچے اور بچیاںجو اپنے دادا،دادی اور نانا، نانی کی گود پالیں ۔ میںہر وقت بات تصور میں لاتی ہوں کہ ہرچیز ہر لمحہ کتنا مختلف ہوتا اگر وہ بقید حیات ہوتے ، اُن کی خوشیوں کے سمندر کا کوئی ساحل نہ ہوتا ۔ اُن کی محبت بچیوں کے لئے کچھ زیادہ تھی اور آج جب پھر سے ایک بار اُن کے گھرا نے میںیہ نعمت ِخداوندی آتی تو کیا حال ہوتا؟؟؟ بہر حال ہمیں اللہ کے ہر فیصلے ہر منشاء کے آگے سر تسلیم خم کر ناہوتا ہے اورجس چیز میںاللہ راضیاس میں ہمیں بھی برضا ورغبت راضی ہونا چاہیے۔
پیاری بہنو! یہ سب بیان کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ جس طرح میں ہر وقت ہر لمحہ، ہر سانس، ہر قدم پر زندگی میں اپنے ابو جان کی کمی محسوس کرتی ہوں، آپ اس انمول نعمت کی قدر دانی سے واقف ہیں لیکن اگر اس سلسلے میںجھول یا بھول ہے تو ابھی سے اس نعمت عظمیٰ کی قدروتکریم کیجئے ۔ ہمارے ابو کے بارے میں اللہ پاک کی جو مرضی تھی وہ ہوکر رہی لیکن یہ عاجزہ آپ سے التماس کرتی ہے کہ اپنے والدین کی عزت واکرام کریں،اُن کی آن بان شان کا ہر وقت لحاظ رکھیں، ماں باپ کی دعائیں لیتی رہیں،ان کی خدمت جتنی بھی ممکن ہو کریں۔ الحمد للہ بفضل تعالیٰ ۲۱ سال سے یہ عاجزہ قرآن واحادیث کی شاگردہ کی حیثیت سے گذار چکی ہے، ہر وقت یہ حدیث پاک ذہن سے گذرتا تھا کہ میرے آقا حضرت محمد مصطفی ﷺ نے بار بار ماں کی عزت کو تین گنا زیادہ کرکے کیوں بتلایا ہے۔ ماں جنت ہے،ماں کی آواز سنو تو نماز کی تکبیر چھوڑ سکتے ہو،ماں سکون ہے، والد عزت ہے،والد جنت کا دروازہ ہے۔ یہ ساری مکارم روایات پڑھنے پڑھانے اور سننے سنانے کو ملتی ہیں مگر میرا ذاتی تجربہ ہے کہ ابھی چند ہی ماہ ہوگئے اس عاجزہ کو ماں کا درجہ پائے ہوئے اور میرا مشاہدہ بالعین ہے کہ واللہ یہ کام اتنا عظیم ، صبر آزمااور اتنا دشوار ہے کہ ماں لفظ ہی محبت کا مانو خزانۂ خیر ورفاقت لگتا ہے۔ماں بننا اتنا آسان نہیں بہت مشکل ہے۔ ہر شادی شدہ خاتون یہ حق ادا کر تی ہے مگر یہ بہت اولوالعزمی کاکام ہے ۔ مان کو اپنا آرام تج کر اپنی اولاد کا آرام ممکن بنانا ہوتا ہے ،اولاد کاسُکھ ماں کا سُکھ ،اس کا دُکھ سب سے پہلے ماں کا دُکھ۔ ماں تربیت گاہ ہے، ماں مربی ہے اور والد سرمایۂ زندگی ہے، اساس ِحیات ہے۔ والدین کا جودرجہ دین اسلام نے تسلیم کیا ہے ،وہ بالکل برحق اور فطرت کے عین مطابق ہے۔یہ زندگی کا ایک ٹھوس سچ ہے کہ ماں باپ بغیر کسی لالچ کے اپنی پوری زندگی نچھاور کرتے ہیں اوربچوں کے خواب ساز اور تربیت و آسائش کے مہتمم ہوتے ہیں۔ اس لئے ہمیں چاہیے کہ ماں باپ کی بہت تعظیم وتکریم کریں۔
عزیز والد محترم کی جتنی مومنانہ صفات کا ذکر کروں کم ہوگا۔ وہ صرف ہمارے والد ہی نہیں تھے بلکہ ہر یتیم بچی کے لئے باپ کی سی حیثیت رکھتے تھے۔مفلوک الحال بیٹیوں کی کفالت میں حتی المقدور پیش پیش رہتے تھے۔ایسی بچیوں کی تعلیم اور نکاح اُن کو قلبی سکون پہنچاتا تھا۔ عیدین پر غریبوں کی جھولی خوشیوں سے بھر دینا اُن کا شیوہ تھا۔ان کی حیاتِ مستعار اگرچہ ہامرے حساب سے قلیل تھی پھر بھی زندگی کے ہر پہلو میں اللہ کے حضور راضی برضا رہتے۔ دینا کے مال و متاع کو سب سے ادنیٰ تصور کرتے تھے۔ اخلاق کریمانہ اور دیانت و امانت مٰن اپنی مثال آپ تھے۔لڑکپن سے ہی سنجیدگی اور متانت فطرت شائستہ بھی خاموش رہنا آپ کی محبوب ادا تھی۔ سچ میں آپ اخلاقِ حمیدہ کے اعلیٰ پیکر تھے۔ حالانکہ تھے تو بشر ہی اور سہو وخطا کا احتمال بھی تھا مگر کوشش بلکہ تمنا یہ رہتی تھی کہ اخلاقِ حسنہ کا چلتا پھرتا نمونہ بنیں۔ خاص کر اولاد کی تربیت میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتے کیونکہ وہ ایمان رکھتے تھے ا س بات پر کہ بچوں کی تربیت کا ذمہ والدین کے سر ہی ہوتا ہے اور اگر ا سباب میں کوتاہی یا غیر ذمہ داری برتی گئی تو یہ والدین کے ساتھ ساتھ اولاد کے لئے بھی خسارے کا سوادا ثابت ہوسکتا ہے۔موجودہ دور میں والدین کی بڑی فاش غلطی یہ ہے کہ بچوں کی ذہنی و اخلاقی تربیت سے عدم دلچسپی اور اپنے عزیز بچوں سے دوری بنانا اُن کا شعار ہوتا ہے۔اس سے بچے خود بخود ان کے ہاتھ سے نکل جاتے ہیں۔ ان حوالوں سے میں اپنے مرحوم والد کی کن کن خوبیوں کا ذکر کروں ۔ہمارے بے لوث مربی ہونے کے علاوہ مرحوم ایک شفیق والد،فرمان بردار فرزند، عظیم شریک ِحیات ہونے کے ساتھ ساتھ ایک منجھے ہوئے قلم کار بھی تھے۔آہ! پھر کیا تھا ہمارے آشیانے پر قہر ٹوٹ پڑا کہ ابو بیمار جان پڑگئے۔ تکلیف شدت اختیار کر گئی مگراس کے باوجود بھی ابو کی زبان سے کبھی شکایت سننے کو نہ ملی، بس اگر سننا تھا تو صرف یہ کہ بیٹا ہم سب رب العزت کے بندے ہیں، ہم اُس کی امانت ہیں، وہ جب چاہئے اپنے پاس بلائے ۔ یہ الفاظ سن کر ہم سب کی آنکھوں سے مسلسل آنسوؤں کی دھاریں بہتی تھیں مگر ابو مسکراتے ہوئے یہ سب بیان کیا کرتے تھے۔ واہ رے! ہم سب کو یہی عالی ہمتی، ایمان اور حوصلہ نصیب ہو آمین۔ اور پھر بالآخر ۲۹ اپریل ۲۰۱۳ء بروز پیر صبح ۵۰:۷ منٹ پر اس بے بس بیٹی کی گود میں ابو اپنا سر رکھ کر ذکر قلبی کرتے ہوئے اپنے رفیق اعلیٰ کی پکار پر لبیک کہہ گئے۔انا لِلّٰہ وان الیہ راجعون۔ یوں اپنی ۵۲؍ سالہ سفر حیات کو کماحقہ اسلامی تعلیمات اور دینی احکامات کے ساتھ مکمل کر کے اپنی رفیقِ حیات اور اولادوں کو ہمیشہ کے لیے داغ مفارقت دے گئے۔ الحمد للہ علی کل حال!
اللہ رب العزت ہمارے ابو جان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ سے اعلیٰ مقام نصیب فرمائے، انہیں کروٹ کروٹ چین اور سکون سے نوازے، انہیں اپنے خاتم ا لانبیاء حضرت محمد مصطفی ﷺ کا دیدار و شفاعت،جامِ کوثر نصیب فرمائے اور تمام بہن بھائیوں کو ابو جیسا والد بزرگوار نصیب فرمائے ، ہم سب کو ان کے لئے نجات کا ذریعہ بنا ئے ، ان کے سکھائے ہوئے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین