شیخ نفیس احمدنیلور
گلشن علم کی مہک سے خود کو معطر کر رہا تھا کہ اسی دوران چُھٹی کی آمد ہوئی۔ چھٹی کے لئے جب رخصت ہو رہا تھا تو اسکول کے باہر دیکھا کہ سجنا نامی میری ایک سہیلی کھڑی منتظر ہے۔ پہلی نظر میں ہی اس کی کشش مجھ کو اپنی طرف مائل کر گئی اورمیں اسے تکتے ہی رہ گیا۔ اس کی شاندار آنکھیں، سرخ لباس، پاک اور نفیس جسم، بے مثال جاذبیّت، اس کی زینت اور رنگت نے مجھ کو تعجب میں ڈال دیا۔ پھر اس سے میری حسین ملاقاتیں ہونے لگیں۔
ایسا کیا ہو گیا؟ پتا نہیں کہ اسی کے ساتھ اسکول آنا جانا ہوتا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ وہ مجھ پر اور میں اس پر فدا ہوں جب بھی اس سہیلی کی طرف دیکھتا تو ایسا لگتا کہ وہ مجھ سے شرما رہی ہے۔ کئی دنوں تک ہماری ملاقاتیں ہوتی رہیں اور آپسی تعلق بڑھتا رہا۔ ہر دن اسکے لئے اسکول کے گیٹ کے باہر میں انتظار کرتا رہتا اور جب وہ آتی تو ساتھ چلتا۔
لیکن ایک دن ایسا ہوا کے میں اسکا منتظر تو رہا مگر اس کا گزرنہ ہوا۔ دل میں بے چینی شروع ہوگئی۔ اس کے انتظار میں ٹھہرے آنکھوں سے آنسو بہنے لگے، اس کے بنا گھر سے آنا اور گھر سے جانا دشوار ترین تھا۔ جی کہہ رہا تھا کہ تھوڈی اور دیر منتظررہوں مگر کیا کروں بہت دیر کے انتظار کے باوجود بھی نہیں آئی۔
اب کیا کروں تم ہی بتاو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ غم میں کئی دن گزر گئے- اب دھیرے دھیرے اس کے بنا بھی آنا جانا چلتا رہا اور عادت ہونے لگی- بالاخیر میں اسکو بُھلا ہی دیا-
کیا آپ جانتے ہیں کہ وہ حسینہ اور حسن کی رانی کون تہی تو سنو غور سے سنو———– وہ کوئی اور نہیں میری سپنوں کی رانی: سجنا نامی بس تھی جس سے میں آیا جایا کرتا تھا –
کیسا لگا میرا مذاق۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہا ہا ہا ہا ہا ہا۔