مختار احمد قریشی
ہر صبح کی طرح آج بھی دروازے کے باہر شور تھا، بچے اسکول جا رہے تھے، پڑوسنیں آٹا گوندھتے ہوئے گپیں ہانک رہی تھیں اور دنیا اپنی رفتار سے رواں دواں تھی لیکن فاطمہ کی زندگی کسی بند کمرے میں ٹھہری ہوئی تھی، جس کے در و دیوار پر خامشی کا قبضہ تھا۔
فاطمہ چالیس سال کی تھی۔ لیکن اس کے چہرے پر وقت نے کچھ یوں زخم ثبت کئے تھے کہ لوگ اسے ساٹھ سالہ عورت سمجھتے۔ دو بیٹیاں تھیں، دونوں سسرال جا چکی تھیں۔ شوہر ریٹائر ہو چکا تھا، لیکن وہ فاطمہ کے لئے کبھی شوہر نہیں، صرف ایک نگران رہا، جو صرف حکم دیتا، طعنہ دیتا، اور کبھی کبھار کچھ رقم دے دیتا۔
فاطمہ نے زندگی صبر سے گزاری تھی۔ والدین کے گھر سے بیاہ کر آئی تو ساس نے کام کی مشین سمجھ کر رکھا، شوہر نے کبھی محبت سے بات نہیں کی اور بچوں کی پرورش میں اس نے خود کو مٹا دیا۔ اب جب سب کچھ ختم ہو چکا تھا تو اسے لگا کہ شاید اب وہ کچھ اپنے لئے جی سکے گی۔ لیکن۔۔۔۔
“تم سے پوچھا کب؟” شوہر نے اخبار سے نظریں ہٹائے بغیر کہا، جب فاطمہ نے ٹی وی پر کوئی نعت سننے کی خواہش ظاہر کی۔
یہ جملہ جیسے اس کے کانوں میں کیل بن کر پیوست ہو گیا۔ وہ پلٹ کر چپ چاپ کچن میں آ گئی اور ہانڈی میں چمچ ہلاتے ہلاتے بس اتنا ہی بولی: “میری بھی سنو کبھی۔”
یہ پہلا موقع نہیں تھا۔ برسوں سے وہ یہی کہتی آ رہی تھی لیکن اس کی آواز جیسے دیوار سے ٹکرا کر لوٹ آتی تھی۔
اس کا دل چاہتا کہ وہ چیخے، روئے، کسی کو بتائے کہ وہ بھی ایک انسان ہے، صرف بیوی، ماں یا بہو نہیں۔ اس کی بھی کچھ خواہشات، خواب اور احساسات تھے۔ وہ بھی چاہتی تھی کہ کوئی اسے پکارے، کوئی اس کی بات سننے والا ہو، کوئی پوچھے: “فاطمہ! تم کیسی ہو؟”
ایک روز محلے کی کمیٹی نے خواتین کے لیے ایک تربیتی نشست رکھی۔ فاطمہ نے ہچکچاتے ہوئے اجازت مانگی۔
“پچاس کی ہوگئی ہو، اب تربیت کی کیا ضرورت؟ گھر سنبھالو بس!” شوہر کی آواز سخت تھی۔
لیکن فاطمہ کا دل اس روز ٹوٹا نہیں۔ اس نے چپ چاپ اپنی چادر اوڑھی اور محلے کی مسجد کے ہال کی طرف چل پڑی، جہاں دوسری عورتیں بیٹھی تھیں۔ وہاں ایک خاتون مقررہ آئیں، جنہوں نے زندگی کے مقصد، خود اعتمادی اور عورت کی شناخت پر بات کی۔ فاطمہ خاموش تھی لیکن اس کے اندر کچھ ٹوٹ بھی رہا تھا اور جڑ بھی رہا تھا۔
جب مقررہ نے سوال کیا:
“کبھی آپ نے اپنے دل کی سنی ہے؟”
فاطمہ کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ یہ سوال جیسے صرف اسی کے لئے تھا۔
واپسی پر گھر کے دروازے پر کھڑی ہوئی تو دل میں ہلکی سی ہچکچاہٹ تھی، لیکن اندر داخل ہوتے ہی چہرہ صاف، آواز نرم اور ہاتھ پھر سے مصروف ہو گئے۔ کسی کو کچھ محسوس نہ ہوا، لیکن فاطمہ جانتی تھی کہ آج اس کے اندر ایک شمع جل گئی ہے۔
اس نے روز ایک پرانی کاپی نکال لی، جس پر کبھی بچپن میں نظمیں لکھا کرتی تھی۔ اب وہ اپنے دل کی باتیں لکھنے لگی۔ ہر صفحے پر ایک پکار ہوتی:
“میری بھی سنو…”
وہ عورتیں جو اکثر اس کے جیسے دکھ سہتی تھیں، ان کے لئے اس نے اپنی تحریروں میں آواز پیدا کی۔ آہستہ آہستہ، وہ محلے کی چند خواتین کو لکھنا، بولنا اور سننا سکھانے لگی۔
ایک دن محلے کی بچی، آمنہ، جو اکثر فاطمہ کے پاس سلائی سیکھنے آتی تھی، بولی:
“خالہ جی! آپ اتنا اچھا بولتی ہیں، آپ کو کسی پروگرام میں بلایا جائے تو؟”
فاطمہ مسکرا دی۔
“کون سنتا ہے میری؟”
آمنہ نے کہا:
“ہم سنتے ہیں، سب سنیں گے، آپ ہمت تو کریں۔”
اور پھر وہ دن بھی آیا، جب مقامی ریڈیو اسٹیشن پر فاطمہ کی آواز گونجی۔ موضوع تھا: “خاموش عورت کی پکار۔”
پروگرام کے آخر میں فاطمہ نے پڑھا:
“میں ماں ہوں، میں بیوی ہوں، میں بہو ہوں، مگر میں صرف ایک رشتہ نہیں بلکہ میں ایک مکمل انسان ہوں۔ میری بھی کچھ باتیں ہیں، میری بھی کچھ خواہشیں ہیں۔ سنو… میری بھی سنو!”
اس روز پورے محلے نے ریڈیو سنا۔ شوہر نے بھی۔ اخبار کے صفحے کی اوٹ سے اس نے پہلی بار فاطمہ کو ایک شخصیت کی حیثیت سے دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں نمی تھی، لیکن زبان خاموش۔
شاید وہ ابھی بھی معذرت نہیں کر پایا تھا، لیکن اس کی خاموشی میں ایک تسلیم تھی اور فاطمہ کے لئے یہی کافی تھا۔
فاطمہ صرف ایک کردار نہیں، ہماری ہر گلی، ہر گھر میں موجود عورت کی نمائندہ ہے، جو برسوں سے یہی کہتی آ رہی ہے:
“میری بھی سنو۔
بونیار بارہمولہ،کشمیر
موبائل نمبر؛8082403001