سرینگر//پائین شہر میں کرفیو نما بندشیں سختی کیساتھ عائد کر کے ریاستی پولیس اور انتظامیہ نے عیدگاہ چلوپروگرام کوناکام بنایا جبکہ ممکنہ مارچ کے پیش نظر میرواعظ عمرفاروق سمیت کئی مزاحمتی لیڈران کوگھروں اورپولیس تھانوں میں بندرکھاگیا جبکہ سید علی گیلانی کے گھر کے باہر پہرے کو سخت کیا گیاتھا ۔اس دوران مرحوم میر واعظ مولوی محمد فاروق اور مرحوم عبدالغنی لون کی برسیوں کے موقع پر مکمل ہڑتال سے معمول کی زندگی مفلوج رہی۔ ہڑتال کی اپیل علیحدگی پسند قیادت سید علی گیلانی، میر واعظ عمر فاروق اور محمد یاسین ملک نے کی تھی۔ انہوں نے دونوں حریت رہنماؤں کی برسیوں کے موقع پرعیدگاہ کے مزار شہداء پر فاتحہ خوانی کی تقریب اور انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے وہاں ایک عظیم الشان جلسہ منعقد کرنے کا اعلان کر رکھا تھا۔ تاہم انتظامیہ نے سری نگر کے پائین شہر میں کرفیو جیسی پابندیاں نافذ اور متعدد سینئر علیحدگی پسند راہنماؤں کو نظربند کرکے علیحدگی پسند قیادت کی طرف مشتہر کردہ پروگرام کو ناکام بنادیا۔ ضلع مجسٹریٹ کے احکامات کے مطابق امن وامان کی صورتحال کو برقرار رکھنے کے لئے پائین شہر کے پانچ پولیس تھانوں نوہٹہ، صفا کدل، ایم آر گنج، خانیار اور رعناواری کے تحت آنے والے علاقوں میں پابندیاں نافذ رہیں۔ اِن علاقوںکے رہائشیوں نے الزام لگایا کہ سیکورٹی فورسز انہیں اپنے گھروں سے باہر نکلنے کی بھی اجازت نہیں دے رہے تھے۔ خیال رہے کہ پائین شہر کے تین پولیس تھانوں نوہٹہ، ایم آر گنج اور صفا کدل کے تحت آنے والے علاقوں میں ہفتہ کے روز بھی احتیاطی اقدامات کے طور پر ضلع مجسٹریٹ کے احکامات پر پابندیاں نافذ رہیں۔ اتوار کو پابندیاں سختی سے نافذ کرنے کے لئے بلٹ پروف جیکٹ پہنے اور خودکار ہتھیاروں اور لاٹھیوں سے لیس سینکڑوں ریاستی پولیس اور سیکورٹی فورس اہلکاروں کو پائین شہر کے تمام حساس مقامات پر تعینات کیا گیا تھا۔ مزار شہداء عیدگاہ کے اردگرد سیکورٹی فورسز اور ریاستی پولیس کے اہلکاروں کی ایک بڑی تعداد تعینات کردی گئی تھی ۔ اگرچہ عیدگاہ کے راستے شیر کشمیر انسٹی چیوٹ آف میڈیکل سائنسز کو جانے والی سڑک کو کھلا رکھا گیا تھا، تاہم اس پر صرف اسپتال جانے والے افراد کو ہی نقل وحرکت کی اجازت دی جارہی تھی۔ کسی بھی شخص یہاں تک کہ میڈیا کے اہلکاروں کو بھی حریت راہنماؤں کے مراقد کے پاس جانے کی اجازت نہیں دی جارہی تھی۔ تمام راستوں بشمول نالہ مار روڑ کو خانیار سے لیکر چھتہ بل تک خاردار تار بچھاکر ٹریفک کی آمد ورفت کے لئے بند کردیا گیا تھا۔ نالہ مار روڑ کے دونوں اطراف رہائش پزیر لوگوں نے الزام لگایا کہ انہیں اپنے گھروں سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ ایسی ہی پابندیاں پائین شہر کے نوہٹہ میں بھی عائد کی گئی تھیں جہاں تاریخی جامع مسجد کے اردگرد سیکورٹی فورسز کی بھاری نفری تعینات رہی۔ خانیار، گوجوارہ ، صفا کدل، رعناواری اور پائین شہر کے دوسرے علاقوں میں بھی ایسی ہی صورتحال نظر آئی۔ اس دوران وادی بشمول سرینگر میں علیحدگی پسند قیادت کی اپیل پر ہڑتال کی گئی ۔ سری نگر کے جن علاقوں کو پابندیوں سے مستثنیٰ رکھا گیا تھا، میں دکانیں اور تجارتی مراکز بند رہے جبکہ پبلک ٹرانسپورٹ کی گاڑیاں سڑکوں سے غائب رہیں۔ تاہم سیول لائنز اور بالائی شہر میں اکادکا نجی گاڑیاں سڑکوں پر چلتی ہوئی نظر آئیں۔ سیول لائنز میں تاہم ہر اتوار کو لگنے والا مشہور سنڈے مارکیٹ جزوی طور پر کھلا رہا جہاں درجنوں چھوٹے تاجروں نے اپنے اسٹال لگائے تھے۔ تاہم سڑکوں پر پبلک ٹرانسپورٹ کی عدم دستیابی کے سبب بہت ہی کم لوگوں نے سنڈے مارکیٹ کا رخ کیا۔ شمالی کشمیر کے قصبہ سوپور سے موصولہ ایک رپورٹ کے مطابق شمالی کشمیر کے تمام قصبوں اور دیگر تحصیل ہیڈکوارٹروں میں مکمل ہڑتال کی گئی۔ رپورٹ کے مطابق شمالی کشمیر کے تمام قصبوں اور دیگر تحصیل ہیڈکوارٹروں میںدکانیں اور تجارتی مراکز بند رہے جبکہ سڑکوں پر ٹریفک کی آمد ورفت معطل رہی۔جنوبی کشمیر کے قصبوں اور تحصیل ہیڈکوارٹروں میں ہڑتال کی وجہ سے کاروباری اور دیگر سرگرمیاں مفلوج رہیں۔ وادی کشمیر کے دوسرے حصوں بشمول وسطی کشمیر کے گاندربل اور بڈگام اضلاع سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق اِن اضلاع میں بھی مکمل ہڑتال کی گئی۔