میرواعظ خاندان کی قدر و منزلت کیلئے یہ کافی ہو گا کہ یہ خاندان کشمیری قوم کی مذہبی ، اصلاحی ، تعلیمی ، سیاسی شعبوں میںفراہم کرتا رہا ہے ۔ کسی بھی قوم کی دینی و سماجی نشو و نماء کیلئے یہ چیزیںانتہائی اہم ہوتی ہیں ۔ ہمہ گیرقیادت کی اہمیت و افادیت کا سب سے بڑا فیضان یہ ہوتا ہے کہ قوم انتشار و خلفشارسے بچتی ہے۔ کشمیر کے مرکزی شہر کی جامع مسجد منبر ومحراب گواہ ہے کہ یہیں سے میر واعظ خاندان کے چشم وچراغ منسب دعوت وارشادپر فائز ہوکر اپنے پند و نصائح اور بصیرتوں سے کشمیری مسلمانوں کی جملہ شعبہ ہائے حیات میں آراستہ و پیراستہ کرتے چلے آ رہے ہیں ۔اِس مرکزیت کو ختم کرنے کی کوششیں بارہا کی گئیں لیکن اِس مقدس مقام کی قدر و منزلت میںزمانے کی آندھیوں کے باوجود کوئی کمی یا سبکی واقع نہیں ہوئی ۔ سنہ سنتالیس کے اضطرابی دور میں میر واعظ یوسف شاہ کی ہجرت کے بعد کشمیر میں میر واعظ کے مقام ومنصب کے تسلسل پر وقتی طورسوالیہ لگ گیا تھا مگر حالات وواقعات کے بہتے دریا کی روانی میں میرواعظ خاندان بہت جلد قوم کی مذہبی وسیاسی رہنمائی کا فریضہ انجام دینے میں فعال کردار ادا کر نے لگا ۔موئے مقدسؐ کے سرقہ کے سننی خیز واقعہ کے ظہور پذیر ہوتے ہی میر واعظ کے مقام کی مرکزیت کا احساس شدید سے شدید تر ہو گیا اور ایک بار پھر اِس مقام کی اہمیت اور افادیت واضح ہو گئی جس کے نتیجے میں میر واعظ مولوی محمدفاروق نے میر واعظیت کے مقام پہ فائز ہو کے کشمیری مسلمانوں کی مرکزیت کی رکھوالی شدومد سے کی۔ یہاں دنیا بھر میں ایسے مقامات کی تاریخ کے ایک طائرانہ جائزے سے ایسے مقامات کی اہمیت اور افادیت اُجاگر ہو سکتی ہے۔
مذہبیت کی تاریخ میں طلوع اسلام سے کم و بیش دو ہزار سال پہلے فلسطین میں بیت المقدس کی مقام پہ ہیکل سلیمانی یہودیت کا مرکزی مقام بناجہاں کے کاہن یہودیوں کے پیش رو بن کر قوم کو قیادت فراہم کرتے رہے۔ یہ سلسلہ حضرت عیسیٰ ؑتک چلتا رہا لیکن تب تک رومی استبداد یہودیت کی مرکزیت کیلئے ایک چلینج بن چکا تھا اور قوم یہود انتشار کا شکار ہو چکی تھی۔یہودیوں کا انتشار صدیوں پہ محیط رہا جب کہ حضرت عیسیٰؑ کے بعد اُن کے حواریوں میں سے سب سے ممتاز سینٹ پیٹر (پطرس) بحیرۂ متوسط عبور کر کے روم کے تاریخی شہر پہنچا ،جہاں اُس نے روم کے گرد و نواح میں پہاڑی غاروں میں عیسائیت کی خفیہ تبلیغ شروع کی۔ عیسائیت قبول کرنے میں رومیوں کے یونانی غلام پیش پیش رہے، چونکہ فلسطینیوں کی مانند وہ بھی رومی استبداد کا شکار ہو چکے تھے۔سینکڑوں سالوں کے میل و ملاپ سے انجام کار یونانی غلام اور اُن کے رومی آقا اتنے گھل مل گئے کہ تاریخی نوعیت کی ایک ملی جلی قوم منظر عام پہ آئی جسے گریکو رومن نام دیا گیا۔گردش زمانہ میں روم کی مغربی سلطنت زوال پذیر ہوئی اور روم کے مغربی شہر سے مشرق میں قسطنطنیہ منتقل ہوئی۔ رومی سلطنت کا یہ مشرقی روپ مشرقی رومی سلطنت کہلایا جس کا عرفی نام بازنطینی سلطنت قرار پایا۔
حضرت عیسیٰؑ سے کم و بیش 400سال بعد عیسائیت بازنطینی سلطنت کا رسمی مذہب قرار پایا۔زمانہ گزرنے کے ساتھ رومن کیتھولیک چرچ نے عیسائیت کے مرکزی مقام کی حیثیت اختیار کی جو آج بھی قائم ہے۔پاپائے روم اس چرچ کی سرپرستی کے فرائض انجام دیتے ہیں۔یہ عیسائیت کا سب سے بڑا چرچ ہے، گرچہ عیسائیت کے کئی فرقوں کے اپنے اپنے چرچ ان فرقوں کو مرکزیت فراہم کرتے ہیں ،جن میں گریک قدامت پرست چرچ (Greek Orthodox Church)روسی قدامت پرست چرچ(Russian Orthodox Church) قطبی چرچ (Coptic Church) قابل ذکر ہیں۔ رومن کیتھولیک چرچ کو مذہبی دائرے میں سب سے بڑے چلینج کا سامنا تب کرنا پڑا جب 16؍ویں صدی میں پروٹسٹنٹ چرچ ایک متبادل کلیسا کی صورت میں ظہور پذیر ہوا۔برطانیہ میں آرچ بشپ آف کنٹر بیری (Archbishop of Canterbury) اس کلیسا کے سر پرست ہیں اور برطانوی سماجی و سیاسی حلقوں میں اہم معاملات میں اُن کی رائے اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔بدلتے ہوئے سیاسی پس منظر میں برطانیہ کا کلیسا مرکزیت فراہم کرتا ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ہر قوم کیلئے ایک مرکزی مقام اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔
میر واعظ خاندان کی اہمیت اور کنٹری بیوشن کو تاریخ کے پس منظر میں جانچنے کے علاوہ مسلمانوں کے اجتماعی اور کشمیر کے مقامی حالات کے دائرے میں پرکھنا ہو گا۔ تاریخ عالم میں ہر قوم کیلئے ایک مرکزی مقام کی ضرورت کا احاطہ کرنے کے بعد جب ہم مسلمانان ِعالم کے مخصوص حالات کا مطالعہ کرتے ہیں تو 1258ء کے بعد ایک لمبا دور نظر میں آتا ہے جسے عالمی سطح ہر مسلمانوں کا دور انحطاط کہا جاتا ہے یعنی وہ دور جب عالم اسلام مجموعی طور زوال پذیر رہے۔ 1258ء میں بغداد میں خلافت عباسیہ کے سرنگوں ہونے کے بعد 1492 ء میں اسپین (اندلس) میں مسلمان اپنے آخری حصار غرناطہ سے نکالے گئے۔ اندلس میں قرطبہ بغداد کے بعد مسلمانوںکا دوسرا مرکز علم و ادب تھا۔ ان اہم مراکز کے چھن جانے سے مسلمان اپنی مرکزیت، علم و ادب کی جستجو ،قومی سیکورٹی کا احساس کھو بیٹھے اور ایک لمبے دور انحطاط کا آغاز ہوا، اگر چہ کہیں کہیں درخشندہ ماضی کی یادِ رفتہ کو پھر سے جلا بخشنے کی کوششیں بھی ہوتی رہیں ۔ مختلف ادوار میں ترکی میں خلافت عثمانیہ اور ہندوستان میں مغلیہ سلطنت نے اس قندیل کو روشن رکھنے کی قابل قدر سعی وکاوش کی لیکن بعد میں یہ چراغ بھی ٹمٹماتے نظر آئے۔
مسلمانوں کے دور انحطاط نے کشمیر میں بھی اپنے اثرات چھوڑے۔ یہاں کبھی لاہور کا خالصہ دربار اور کبھی ڈوگرہ شاہی مسلط رہی ، حتیٰ کہ افغان حاکموں کے دور میں بھی کشمیریوں کو امن و سکون کا سانس میسر نہ ہو سکا۔ایسے ادوار میں جہاں کشمیر یوںکی جان کے لالے پڑے ہوئے تھے علم و دانش کی تلاش وجستجو ایک خواب سی بن گئی تھی لیکن نا امیدی کو زوال علم و عرفاں مانتے ہوئے جنوبی کشمیر میں ترال کے پسماندہ دیہاتی علاقے میں سکونت پذیر ایک خاندان نے کشمیریوں کی کسمپرسی اور ذہنی جمود کی حالت میں درس و تدریس کا چراغاں شروع کیا۔اس بر گزیدہ خاندان کے پہلے جانے مانے بزرگ مولوی صدیق اللہ تھے جنہوں نے اپنے آبائی گاؤں ترال میں اسلامی اصولوں و تعلیمات کی تبلیغ واشاعت کے کام کے علاوہ دینی تعلیم کے فروغ کیلئے ایک مدرسہ بھی قائم کیا ۔منشی محمد الدین فوقؔ اپنی کئی تصا نیف میں سے ایک کتاب ’’ تاریخ اقوام کشمیر:جلد دوم‘‘ کے صفحہ 430-440میں میر واعظ خاندان کا رشتہ اُن سادات سے جو ڑتے ہیں جو حضرت میر سید علی الہمدانی ؒ کے ساتھ کشمیر آئے تھے اور جنہوں نے کشمیر کو اپنا وطن اور مسکن بنایا۔ترال کی وجہ تسمیہ کے بارے میں روایت ہے کہ جنوبی کشمیر کا یہ مقام سید السادات میر سید علی ہمدانی ؒنے تین لعلوں کے عوض بادشاہِ وقت سے حاصل کیا اور بنتے بگڑتے تین لعل ترال بن گیا۔ مولوی صدیق اللہ جنہیں دینی معلم ہونے کی خاطر آخوند صدیق اللہ بھی کہا جاتا تھا، کے مرید اُن کے آبائی علاقے تک ہی محدودنہیں تھے بلکہ شہر سرینگر تک پھیلے ہوئے تھے، چناںچہ خانیار کے معروف رئیس سید غلام شاہ آزاد اُنہیں فرط محبت و عقیدت سے ’’صدیق بائیو‘‘ کہتے تھے ۔
سرینگر میں پھیلتی ہوئی محبوبیت ومقبولیت کے پیش نظر میر واعظ خاندان افغانوں کے دور حکومت [1750-1819 A.D]میں ترال سے شہر سرینگر یا شہر خاص منتقل ہوا۔آخوند عبدالسلام نے اپنے والد آخوند صدیق اللہ کی روایات کو قائم رکھا اور اُن کے سب سے بڑے فرزند حافظ عبدا لرسول عرف لسہ بابا جن کا جنم 1198 ھ میں ہوا، عربی و فارسی کے اسکالر تھے اور ایک شاعر بھی جن کی فارسی شاعری میں دین داری و خدا پرستی نے ایک ایسا حسین رنگ بھر دیا کہ جو جذبات پہ چھا جا تا ہے۔ چناںچہ ذات حق کی صفات کے بارے میں فرمایا ؎
چوں ورزیدہ نسیم تو شمیمے بہ خلیل
نادِ نمرود گلستان شدہ سبحان اللہ!
آپ نسیم (صبح کی ہوا) کی مانند خلیل اللہ حضرت ابراہیم ؑ پہ شمیم (خوشبو سے بھری ہوئی مہک دار ہوا)بن کے چھا گئے اور نارِ نمرود کو گلستان بنا گئے جہاں مہک ہی مہک تھی۔ 1261ھ میں لسہ بابا کی وفات کے بعد مولوی محمد یحیٰ صرف نو سال کی عمر میں میر واعظ کشمیر بن گئے ۔سر پرستی کے فرائض ولی اللہ شیخ احمد شاہ تارہ بلیؒ نے انجام دئے۔48؍ سال تک اُنہوں نے فرائض منصبی نبھاتے ہوئے مسجد جامع میں وعظ خوانی کی اور اس کے علاوہ عربی ،فارسی و کشمیری میں کئی کتابیں رقم فرمائیں۔آپ نے اپنے کے علاوہ گھر کے دیوان خانے میں طالب علموں کو اپنے علم وفہم کی روشنی سے منور فرمایا، جن میں کشمیر کے نامور شاعر امیر الدین اسیر بھی شامل رہے ۔میر واعظ کشمیر کے خطاب کی تصدیق بادشاہ وقت کے دربار سے میر واعظ خاندان کو مولوی محمد یحییٰ کے زمانے میں ہی حاصل ہوئی،ا گر چہ اس عظیم الشان خاندان کو کشمیری عوام نے اُس سے پہلے ہی بالا ترین منبر یعنی جامع مسجد سرینگر میں وعظ خوانی کا شرف بخشا تھا ۔ درس و تدریس اورجامع مسجد میں اہل منبر ہونے کی شرف یابی نے میر واعظ خاندان کو کشمیر میں ایک مرکزی کردار نبھانے کا سنہری موقع فراہم کیا۔دینی و مروجہ تعلیم سے آراستہ ہونے کے سبب میر واعظ خاندان کے رجال عظیم نے گراں قدر خدمات انجام دیں۔ 1307 ھ میں حج بیت اللہ کی تکمیل کے بعد 1308 ھ میں میر واعظ مولوی محمد یحییٰ نے جہان ِ فانی کو وداع کہا اور مولوی رسول شاہ میر واعظِ کشمیر مقرر ہوئے ۔
میر واعظ رسول شاہ نے 7سال میں حفظ قران کے بعد 16/17 سال کی عمر میں مروجہ تعلیم کو پا یہ تکمیل تک پہنچایا۔اُن کے بارے میں کہا جاتاہے کہ ’’ایشاں سر سید کشمیر بودند‘‘ یعنی یہ کشمیر کے سر سید تھے اور اس میں کوئی مبالغہ آرائی نہیں ۔ اُنہوں نے سر سید کی تقلید میں 1890 میں اسلامیہ سکول کی بنیاد رکھی اور ایسے میں مروجہ تعلیم کو ایک ادارتی شکل سے آراستہ کیا گیا۔اسلامیہ سکول نے اُس قومی جمود پہ قابو پانے میں قابل قدر خدمات انجام دیں جو جہالت اور بے علمی سے کشمیر پہ چھا چکا تھا۔ اسلامیہ سکول پہلے ایک پرائمری سکول تھا، پھر مڈل سکول بن گیا اور اُس کی ادارتی شکل کو انجمن نصر ۃ الاسلام کا عنوان ملا۔ 1325ھ میں یہ اسلامیہ سکول ہائی سکول کے درجے تک پہنچاجس میں ایک مدرسہ عربیہ دینیہ ٔ بھی شامل رہااور ایسے میں اپنے اسلاف کے ورثے کی میر واعظ رسول شاہؒ نہ صرف نگہبانی کی بلکہ وقت کی اہم ترین ضرورت کو پوارا کرنے میں بھر پور کردار بھی نبھایا۔ اسلامیہ سکول کے قیام اور انجمن نصر ۃ الاسلام کی ترتیب کو بلاشبہ کشمیری رستا خیز (تجدید نو۔Renaissance) کی علامت کہا جا سکتا ہے۔مروجہ تعلیم کے فروغ کے ساتھ ساتھ میر واعظ مولوی رسول شاہ ؒاپنے دینی فرائض بھی بہ احسن نبھاتے رہے ۔ اُنہوں نے اپنے وعظ وتبلیغ کی مجالس کو شہر خاص سرینگر تک محدود نہیں رکھا بلکہ آپ اسلام آباد،شوپیان، بارہمولہ اور سوپور کے علاوہ ملحقہ دیہاتوں میں بھی وعظ خوانیاں فرماتے تھے۔آپ کی تبلیغ کی اساس امر بہ معروف و نہی عن المنکر تھی اور آپ کے وعظ کو منشی محمد الدین فوق ؔنے جادو بیانی سے تعبیر دی ہے۔کشمیر کے دعا گو عوام سے سر سید ثانی کا خطاب پانے کے بعد آپ نے 1327ھ ھ میں بروز جمعہ 19سالہ دور میر واعظیت کے بعد جہانِ فانی کو وداع کہا۔ راوی کا بیان ہے کہ تیس چالیس ہزار کا مجمع جنازے میں شامل رہااور خود بخودسارے شہر میں ہڑتال ہوئی۔ اُن کے بعد مولوی احمداللہؒ میر واعظ بنے اور پھر میر واعظ مولوی یوسف شاہؒ نے یہ منصب سنبھالا۔
میر واعظ مولوی یوسف شاہ ؒ کا دور سیاسی جاگرتی کا دو ر تھا اور کشمیر کے سیاسی محاز پہ بھی میر واعظ خاندان نے اپنا رول نبھایا بلکہ سیاسی بیداری کی ابتدا ہی جامع مسجد کے منبر پہ ہوئی ۔یہ منبر سیاسی دائرے میں بھی مرکزیت کی علامت بن گیا ۔ 1931ء میں کشمیر کی مسلی ہوئی روح ایک بھر پور احتجاج کی صورت میں اُبھر آئی ۔اس احتجاج کا آغاز بھی جامع مسجد کے منبر ومحراب سے ہوا اور یہی سے ایک عوامی تحریک شروع ہوئی جو آج بھی مختلف مراحل طے کرتی ہوئی جاری و ساری ہے۔ بر صغیر کی تقسیم کے بعد مولوی یوسف شاہؒ کشمیر کی خونی لائن کے اُس پار چلے گئے جہاں اُنہوں نے وزارت تعلیم کا قلمدان سنبھالا اور پھر صدر ’’آزاد کشمیر ‘‘ مقرر ہوئے۔اُن کی غیر حاضری میں میرواعظ مولانا محمد فاروقؒ نے جامع مسجد کا منبر ومحراب سنبھالااور عوامی ایکشن کمیٹی کی سربراہی بھی سنبھالی۔ 1990ء کے پُر آشوب دور میں وہ نامساعد حالات کے چکر میں پُر اسرار طور اپنی جاں عزیز گنوا بیٹھے ۔مولوی عمر فاروق نے صغر سنی میں نہ صرف میر واعظ کا مقام سنبھالا بلکہ تحریک مزاحمت کی رہبری کے فرائض انجام دئے۔یہ سلسلہ تادم تحریرآب وتاب کے ساتھ جاری ہے اور آپ کی مزاحمتی قوت کاتوڑ کر نے کیلئے عصر حاضر میں نت نئے ہتھکنڈے آزمائے جا رہے ہیںجن میں این آئے اے (NIA) کا وہ دو نوٹسیں بھی شامل بتائی جاتی ہیں جو وقت کے میر واعظ کو عسکریت کو مالی تعاون دینے کی تفتیش کے سلسلے میں ادارے کے تفتیش کاروں کے روبرو نئی دلی میں حاضر ہونے کیلئے ارسال کئے گئے ہیں۔ این آئی اے بھارت کی ایک مرکزی تحقیقاتی ایجنسی ہے مگر میرواعظ کو دلی میں اس کے یہاں حاضری کا نوٹس میرواعظ موصوف کے نقطہ ٔ نظر سے مخاصمانہ ماحول میں ان کی زندگی کے لئے موزوں نہیں ہے ،انہوں نے اپنے وکیل کے ذریعے یہ خدشہ ظاہر کیا ہے۔میر واعظ کے وکیل نے متذکرہ ادارے کو تحریراً مطلع کیا ہے کہ این آئی اے کے تفتیش کا رسری نگر آکر اپنی ڈیوٹی کر سکتے ہیں اور یہ کہ ان کے موکل تفیش کاروں سے مکمل تعاون کر نے کوتیار ہیں ۔ قومی تفتیشی ادارے کی جانب سے میرواعظ کی نئی دلی طلبی پر ریاست کی مقتدر پارٹیاں اور عوام الناس انگشت بدنداں ہیں۔ بہتری اور برتری اسی میں مضمر ہے کہ میر واعظ کے مقام ومنزلت کو برقرار رکھتے ہوئے اُن کے ا ستدلال سے موافقت کی جائے تاکہ کشمیر میں لگی آگ مزید نہ بھڑک جائے ۔
Feedback on: [email protected]