محمد اسداللہ
ماہ ِ رمضان میںروزہ رکھنے کا ارمان بچپن میں بھی ویسا ہی تھا جیسا اب ہے ،بلکہ کچھ زیادہ ہی کہہ لیجئے ۔ اس مبارک مہینے کا وہ پاکیزہ ماحول ،گھر بھر میں روزے اور دیگر عبادتوں کا جوش ، افطار سے پہلے طرح طرح کے پکوانوں کی پھیلتی مہک،پڑوس کے بچوں کا پلیٹوں میں افطاری لے لے کر آ نا ،گھر کے بزرگوں کا تسبیح و تلاوت میں مشغول رہنا اور گھر میں کسی شخص کا روزے کی شدت سے متاثر ہوکر بچوں پر اپنا روزہ اتارنا ،یہ ساری چیزیں اب بھی بچپن کی یاد وں میں تازہ ہیں ۔ میں نے پہلا روزہ کس عمر میں رکھا یاد نہیں ، وہ قصہ ہے دلچسپ مگر اس سے پہلے، بعد میں رکھے گئے روزوں کے بارے میں چند باتیں ہوجائیں ۔
ایک بار ایساہوا کہ ہماری بستی میں سرکس کے آ نے کی خبر ملی اور اسی دوران رمضان کا مہینہ شروع ہوگیا ۔ ہم روزہ چھوڑنا چاہئے تھے اور نہ سرکس ۔اس سے پہلے کبھی ہم نے یہ عجیب و غریب چیز دیکھی نہیں تھی ۔مشکل یہ تھی کہ سرکس کے شروع ہونے کا وقت وہی تھا جو افطار کا تھا۔ ہمارے دوست ناصر نے ایسا راستہ نکالا کہ روزہ بھی ہو اور سر کس بھی دیکھ لیں ۔چنانچہ افطار سے ذراکچھ پہلے ہم دور تک پھیلے سر کس کے پنڈال میںداخل ہوئے تو ہمارے ساتھ افطاری کا سامان بھی تھا۔وہاں روزہ افطار کر نا بھی سرکس کے کرتب سے کم نہ تھا۔لکڑیوں کی سیڑھی جیسی چھوٹی چھوٹی پٹریوں پر بیٹھنا پڑتا تھا ۔ہم سب سے اوپر پہنچ گئے ۔اس زمانے میں ہم لوگوں کے پاس گھڑی نہیں تھی ۔ وہ جگہ مسجد سے اتنی دور تھی کہ اذان کی آ واز سنائی بھی نہ دیتی تھی ۔ سر کس کے پر دے اٹھا کر جھانک جھانک کر دیکھتے رہے کہ سورج ڈوبا یا نہیں ۔ جب انداز ہوگیا کہ افطار کا وقت ہوگیا ہے تو ساتھ لائی ہوئی کھجوروں ،پوریوں اور کبابوں سے روزہ افطار کیا ۔جلد ہی گھنٹی بجی اور شو شروع ہوگیا۔
پہلے تو ہم افطاری گھر پر ہی کر لیا کرتے تھے ۔جب پہل بار مسجد گئے تو دیکھا کہ ایک گوشے میں سارے بچے بیٹھے ہیں ،ہر گروپ میں ایک بڑا تھال درمیان میںرکھا ہے جس میں ہر طرح کے پھل اورپکوان رکھے ہیں ۔ ہم بھی ان میں شامل ہوگئے ۔ایک بچے نے سمجھا نا شروع کیا۔دعا پڑھے بغیر کھانے کو ہاتھ نہ لگانا۔کسی نے پوچھا : روزے کی دعاکیسے پڑھتے ہیں ؟ اس پر سب بچے الگ الگ دعائیں بتا نے لگے ۔ کسی نے کہا: کبڑی ببول ،میرا روزہ قبول ،کسی نے بتایا،پھول میں پھول ،گلاب کا پھول ،میرا روزہ قبول وغیرہ ۔ہمیں تو ان کی باتوں پر یقین نہ آ یا۔جب اعلان ہوا تو بسم اللہ کہہ کر افطار کر لیا ۔ بڑے ہوئے تو پتہ چلا اس کی مشہور دعا عربی زبان میں ہے ۔جلد ہی ہم نے اسے یاد کرلیا ۔
اب آ ئیے پہلے روزے کی طرف جو ہمارے لیے کسی امتحان سے کم نہ تھا۔ گھر میں سب کو روزوں کا اہتمام کر تے دیکھ ہم نے طے کر لیا کہ ہم کیوں پیچھے رہیں ۔ایک اونچی جگہ کھڑے ہوکر اعلان کردیا کہ کل ہم بھی سحری کریں گے ۔ نانی نے سختی سے ڈانٹا کہ،تم پر ابھی روزے فرض نہیں ہوئے ہیں ، اتنے چھوٹے بچے روزہ نہیں رکھا کرتے ۔ مگر ہم اڑے ہوئے تھے کہ ہم رکھ سکتے ہیں۔رات میںنے امی سے کہہ دیا کہ ہمیں بھی سحری کے وقت اٹھا دیں ۔ دوسرے دن صبح جب آ نکھ کھلی تو سورج سر پر آ چکا تھا۔ہمیں محسوس ہو ا کہ ہمارے ساتھ بڑا دھوکا ہوا ہے ۔ رو رو کر گھر سر پر اٹھالیا اور ضد پکڑ لی کہ ہم بغیر سحری کا روزہ رکھیں گے ۔ گھر میں کسی کو ایسا کرتے دیکھ چکے تھے ۔ یہ سننا تھاکہ نانی گھبراگئیں ۔کسی نے ڈانٹا ، کسی نے پیار سے سمجھایامگر ہم ٹس سے مس نہ ہوئے ۔ ہمیں طرح طرح کے لالچ دئے گیے ۔بازار سے ہمارے پسند کی چیزیں منگوا کر ہمارے سامنے سجادی گئیں کہ جو جی میں آ ئے کھائو مگر اس طرح روزہ نہ رکھو۔ ہم نہ مانے تو دو روپئے کا لالچ دیا گیا کہ یہ لے لو اور اپنی پسند کی جو چیز چاہو خرید لینا۔ ہم نے کسی کی ایک نہ سنی ۔
جب بہت وقت گزر گیا تو میرا دوست ناصر میرے پاس آ یا اور کہنے لگا ۔دو روپئے مل رہے ہیں ،لے لو ، ہم اس سے بازار سے سونڈ میں جھومر گھمانے والا ہاتھی خرید لیں گے ۔ اس چابی والے کھلونے پر تو کئی دنوں سے ہماری رال ٹپک رہی تھی مگر خرید نے کے لیے پیسے نہ تھے ۔ کھلونے کی بات نے ہمارا ارادہ بدل دیا۔ ہم نے گلاب جامن کھا کر روزہ توڑدیا مگر اس شرط کے ساتھ کہ کل ہمیں سحری کے لیے ضرور اٹھایا جائے ورنہ ہم کل بھی وہی کریں گے جو آ ج کیا۔ گھر بھر میںہمارے بے سحری کے روزے کا ایسا ڈر بیٹھ گیاتھا کہ ہمیں سب کے ساتھ اٹھایا گیا ۔ اس طرح ہم نے پہلاروزہ رکھا۔۔۔۔۔۔،اور اس کے بعد ہمیں یاد نہیں کہ زندگی بھرکبھی ہم نے کوئی روزہ توڑا ہو یا چھوڑا ہو۔
رابطہ۔ 9579591149
[email protected]>