آج میں نے شہر میں اپنے گھر کے دروازے کا نمبر مٹا دیاہے۔ اب لوگ اپنے سوچ کے کینواس پر سے میری شیبہ کو مٹا دیں گے، پر میرے نقوشِ پا لوگوں کو میرے ہونے کا احساس تو ضرور دیں گے۔
’’پھر تم کہاں ملو گے!؟‘‘ میرے دوست پروفیسر رمضان نے مُجھ سے تعجب کے ساتھ پوچھا۔
’’مجھے پاکر تمہیںکیا ملے گا؟‘‘
’’میرے من کا بوجھ ہلکا ہوگا‘‘ پروفیسر نے جواب دیا۔
’’بھائی !کیسے؟‘‘
’’اس لئے کہ جب میرا من کبھی غم سے بوجھل ہوجاتا تھا تو میں اپنے معمولات کو آپ کے ساتھ شیئر کرتا تھا۔ تب تم مجھے غم کو بُھلانے کا نسخہ بتاتے تھے اور میرا بوجھ خود بخود ہلکا ہوجاتا تھا!
لیکن اب جب تم نے اپنے گھر کا نمبر ہی مٹا دیا ہے اور راہِ فرار اختیار کی ہے تو میرا غم مجھے اندر ہی اندر کالے سانپ کی طرح ڈس لے گا۔ تب تم مجھے ڈھونڈنے کے لئے ضروری آئوگے۔۔۔ لیکن میرا پتہ میرے مزار کی لوح پر رقم ہوگا!‘‘
’’پروفیسر! اگر ایسی بات ہے تو میں تمہیں ضرور اپنا پتہ دیتا ہوں۔‘‘
’’ہاں! ہاںہاں پلیز مجھ پر رحم کرو‘‘ پروفیسر نے عاجزی کرتے ہوئے کہا
’’ٹھیک ہے۔ میں اپنی مشقِ سخن جاری رکھوں گا‘‘۔
’’لیکن کس پتہ پر!؟‘‘ پروفیسر دفعتاً بولے۔
’’تمہیں میرا پتہ ہر اُس گلی میں ملے گا، جہاں تمہاری ملاقات کسی آزاد روح سے ہوگی۔۔۔۔ جہاں لوگوں کے لب آزاد ہیں، جہاں ایک جوان بیوہ اپنے نوزائیدہ بچے کو بے خوف لوری سنا رہی ہے۔ تمہیں میرا پتہ وہاں ملے گا جہاں پیار کے نغمے آج بھی گونج رہے ہیں۔ جہاں ہیر کی یاد میں آج بھی رانجھا بانسری بجا رہا ہے! جہاں کسی مجبور اور لاچار کنواری کی چیخ مُردہ ضمیر کو ’’جگا رہی ہے!‘‘
’’پروفیسر! میرا پتہ تمہیں اُس شاہراہ پر بھی ملے گا جہاں اخبار فروش بے خطر بوڑھے باپ کی اُس کربناک روداد کو پڑھ کر سنا رہے ہیں جب سے بزرگی میں اُس کا جوان بیٹا چھنا گیا۔‘‘
’’پروفیسر! میرا پتہ تمہیں اُس کالونی میں بھی ملے گا جہاں کبھی لہلہاتے کھیت تھے۔ لیکن اب اُس کھیت میں پختہ مکانات تعمیر ہوچکے ہیں۔ جن کے مکین ہر لمحہ فکر کی چکی میں پستے جارہے ہیں۔ بازار میں بھی تمہیں میرا پتہ مل سکتا ہے، جہاں انصاف ،سچ، حیا، امانت، حق اور فرض جیسے الفاظ برسوں سے بیمار پڑے ہیں!‘‘
’’لیکن بازار میں۔۔۔۔۔۔‘‘ پھر پروفیسر خاموش ہوگئے۔
’’ہاں۔۔۔ہاں ہاں اس لئے کہ بازار میں افسانے بُنے جاتے ہیں!‘‘
’’اور بھی کوئی جگہ ہے جہاں یہ تمہارا پتہ مل سکتا ہے؟‘‘
’’جی! پروفیسر بن ماں بے بس اور لاچار دوشیزہ کے گھر میں بھی تمہیں میرا پتہ مل سکتا ہے، جو اکثر ماں کو یاد کرکے سسکیاں لیتی ہیں اورمیں تمہیں گلمرگ کی خوفزہ وادی میں بھی مِل سکتا ہوں جس کی شانِ رفتہ ظالم انسان کے ہاتھوں نیلام ہورہی ہے!‘‘
پروفیسر! میرا پتہ تمہیں اُن مقامات پر بھی دستیاب ہوگا جہاں مساجد کے میناروں پر آج بھی کبوتر نغمہ سرا ہیں!
تُم مجھے انسان کی کھینچی ہوئی اُس خونی لکیر کے آس پاس بھی پائو گے جہاں مظلوم روحوں کی کپکپاتی صدائیں آج بھی گشت کررہی ہیں!
’’ہمیں بچائو‘‘
’’تمہارا مطلب سرحد۔۔۔ ! لیکن وہاں کیوں!؟‘‘ پروفیسر نے تعجب سے پوچھا۔
’’اس لئے کہ وہاں لفظ لفظ نوحہ خواں ہے۔ وہاں ہر گھڑی کوئی نئی کہانی جنم لیتی ہے!‘‘
’’میرا آخری سوال!‘‘
’’جی! پروفیسر بولئے‘‘۔ میں نے کہا
’’شہر میں تم نے اپنے گھر کا نمبر کیوں مٹا دیا؟‘‘
’’پروفیسر کے اس آخری سوال پر میرے آنسوں اُمڈ آئے ، میں نے پروفیسر کو حقیقتِ حال سے آگاہ کیا۔۔۔۔
’’کل جب بڑھاپے نے میری دہلیز پر قدم جمایئے۔تو پہلی بات اُس نے میرے کان میں بتا دی۔ اس شہر میں تیری جوانی چوری ہوگئی!‘‘۔
���
رابطہ: آزاد کالونی پیٹھ کا انہامہ،بیروہ9906534724