محمد عرفات وانی
بسا اوقات قلم کی طاقت وہ معجزہ دکھاتی ہے جو تلواروں کے بس کی بات نہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ الفاظ نے جہاں انقلاب برپا کیے، وہیں معاشروں کو سنوارا بھی۔ ایسے ہی فکر انگیز اور دلوں کو جھنجھوڑ دینے والے الفاظ کی روشنی میں جنم لینے والی ایک بے مثال کتاب، “میرا سایہ: حقوق العباد، انسانیت کی بنیاد” ہے، جو معروف قلمکار مختار احمد قریشی کی علمی، فکری اور تحقیقی بصیرت کا ایک شاہکار ہے۔یہ کتاب صرف ایک تصنیف نہیں، بلکہ ایک آئینہ ہے جو ہر انسان کو اس کے فرائض اور ذمہ داریوں کا احساس دلاتا ہے۔ یہ کتاب نہ صرف مذہبی، اخلاقی اور معاشرتی حوالے سے حقوق العباد کی گہرائیوں کو اجاگر کرتی ہے، بلکہ عملی زندگی میں ان اصولوں کے نفاذ کے لیے بھی ایک روشن چراغ کی مانند ہے۔ مختار احمد قریشی جو اپنے علمی و ادبی قد کاٹھ کے باعث کشمیر کے نامور اخبارات اور جرائد میں اپنی فکری تحریروں کے ذریعے جانے جاتے ہیں، اس کتاب میں انسانیت کے بنیادی اصولوں کو ایسے انداز میں بیان کرتے ہیں کہ ہر قاری خود کو اس آئینے میں دیکھنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔مصنف ایک چراغ کی طرح تاریکی میں روشنی بکھیرتا ہےاور اُن کا قلم ہمیشہ سچائی، تحقیق اور اصلاح کے جذبے سے لبریز رہتا ہے۔ ان کا تعلق وادی کشمیر کے حسین علاقے بونیار سے ہے، جہاں انہوں نے 2 مارچ 1982 کو آنکھ کھولی۔ ان کے والد مرحوم عبدالرشید قریشی کی دیانت، استقامت اور خدمتِ خلق کا اثر ان کی شخصیت میں نمایاں جھلکتا ہے۔ ابتدائی تعلیم کے بعدانہوں نے اپنے تعلیمی سفر کو مسلسل جاری رکھا، یہاں تک کہ تین مختلف علوم (نفسیات، اسلامیات اور اردو) میں ماسٹرز کی ڈگریاں حاصل کیں اور تدریس کے شعبے میں نمایاں خدمات انجام دیں۔ وہ نہ صرف ایک معلم بلکہ ایک حساس محقق اور مفکر بھی ہیں، جنہوں نے تعلیمی اور سماجی مسائل پر اپنی تحریروں سے ایک نئی راہ دکھائی ہے۔’’میرا سایہ‘‘ کو اگر حقوق العباد پر لکھی گئی بہترین تصانیف میں شمار کیا جائے تو یہ مبالغہ نہ ہوگا۔ یہ کتاب چار حصوں پر مشتمل ہے، جس میں 13 اہم موضوعات کو انتہائی منفرد انداز میں ترتیب دیا گیا ہے۔حصہ اول کا باب حقوق العباد کی بنیادی تشریح کرتا ہے اور اس کی جڑیں قرآن و سنت میں تلاش کرتا ہے۔حصہ دوم ، انسانی حقوق پر مشتمل ہے۔جس میں مختلف طبقات کے حقوق ، جن میںوالدین کے حقوق، اولاد کے حقوق،رشتہ داروں اور پڑوسیوں کے حقوق، مزدوروں اور ملازمین کے حقوق،مسافروں اور یتیموں کے حقوق اسلام کی روشنی میں بیان کئے گئے ہیں۔حصہ سوم میں اخلاقیات اور سماجی انصاف کے موضوعات چھیڑے گئے ہیں۔یہ باب اسلامی معاشرت کے اُس پہلو پر روشنی ڈالتا ہے جو اخلاقی اقدار، عدل و انصاف اور بھائی چارے پر مبنی ہے۔حصہ چہارم چیلنجز اور حل کے متعلق ہے۔یہ باب اس بات کا احاطہ کرتا ہے کہ موجودہ دور میں حقوق العباد کے نفاذ میں کیا رکاوٹیں ہیں اور ان کے حل کے لیے اسلامی تعلیمات کیسا راستہ دکھاتی ہیں۔
یہ کتاب محض نظریات کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک عملی منشور ہے۔ مختار احمد قریشی نے قرآن و حدیث، سیرتِ طیبہ، اسلامی تاریخ اور جدید دنیا کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک ایسی تحریر پیش کی ہے، جو ہر قاری کے دل میں ایک انقلاب برپا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ صرف کتاب نہیں بلکہ انسانی عظمت کا ایک بیانیہ ہے، جو ہمیں احساس دلاتا ہے کہ جب تک ہم حقوق العباد کی پاسداری نہیں کریں گے، ہمارا ایمان نامکمل رہے گا۔ ہر باب ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے قاری کے ضمیر سے مکالمہ کر رہا ہو، اسے اس کے فرائض یاد دلا رہا ہو اور اسے حق اور باطل کی تمیز سکھا رہا ہو۔
’’میرا سایہ: حقوق العباد، انسانیت کی بنیاد‘‘محض الفاظ کا مجموعہ نہیں بلکہ روح کی بیداری کا پیام ہے۔ یہ کتاب ایک ایسی روشنی ہے جو ہر انسان کو اس کے حقیقی مقصد سے روشناس کراتی ہے۔یہ کتاب ہر اس شخص کو پڑھنی چاہیے جو اسلامی تعلیمات، انسانی اقدار اور سماجی عدل پر گہری نظر رکھتا ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی سوچ نکھرے، آپ کی بصیرت وسیع ہو اور آپ کی زندگی میں حقوق العباد کے اصول عملی طور پر نافذ ہوں تو یہ کتاب آپ کی رہنمائی کے لیے ایک مشعلِ راہ ہے۔مصنف قریشی صاحب کی یہ تصنیف ایک سو پچاس صفحات پر مشتمل ہے،جسےاس7006738304 نمبر پر رابطہ کرکے حاصل کیا جاسکتا ہے۔یہ کتاب ہر اس شخص کے لیے ہے ،جو چاہتا ہے کہ اس کا وجود انسانیت کی خدمت میں مصروف رہے اور اس کا دل محبت، اخوت اور عدل کے جذبے سے معمور ہو۔گویا یہ کتاب محض ایک تصنیف نہیںبلکہ ایک پیغام ہے، ایک تحریک ہے، ایک ایسی روشنی ہے جو نسلوں کو منور کر سکتی ہے۔ اگر آپ نے ابھی تک ’’میرا سایہ‘‘ نہیں پڑھی، تو سمجھ لیجیے کہ آپ ایک بے مثال فکری اور روحانی خزانے سے محروم ہیں۔
یہ کتاب ہر صاحبِ دل کے لیے ایک آئینہ ہے جو اسے اس کے فرائض یاد دلاتا ہےاور ایک ایسی دستاویز ہے جو آنے والی نسلوں کے لیے مشعل راہ ثابت ہوگی۔
رابطہ۔9622881110
[email protected]