9اپریل کو سرینگر بڈگام پارلیمانی حلقہ کے ضمنی چنائو کے دوران اوٹلی گام بیروہ میں فاروق احمد ڈار نامی نوجوان کو فوجی جیپ کے آگے باندھ کر اسے انسانی ڈھال کے بطور استعمال کرنے والے فوج کی 53راشٹریہ رائفلزکے میجر لیتل گگوئی کوفوجی سربراہ کی جانب سے تعریفی کارڈدئے جانے کی سیاسی اور انسانی حقوق تنظیموں نے سخت مخالفت کی ہے ۔ایمنسٹی انٹر نیشنل نے مذکورہ فوجی میجر کو اعزاز سے نوازنے کے فیصلہ کو فوج کی جانب سے انسانی حقوق کی پامالیوں کی حوصلہ افزائی سے تعبیر کیاہے ۔ایمنسٹی انٹر نیشنل انڈیا کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر آکار پٹیل کے مطابق انسانی حقوق پامالیوں کے سلسلے میں زیر تحقیقات ایک آفیسر کو اعزاز سے نوازنے سے لگتا ہے کہ فوج نہ صرف انسانی حقوق کی پامالیوں کو صرف نظر کررہی ہے بلکہ اصل میں ظالمانہ اور غیر انسانی حرکت کو دلیری سے تعبیر کررہی ہے ۔کم و بیس سبھی مین سٹریم او ر مزاحمتی جماعتوں نے بھی اسی طرح کا ردعمل دیا ہے جن کے نزدیک فوجی آفیسر کو اعزاز سے نوازنا فوج کو یہ واضح پیغام دینا ہے کہ وہ کسی کے سامنے جوابدہ نہیں ہیں اور بحالی امن کے نام پر وہ کچھ بھی کرگزر سکتے ہیں۔فوج کے مطابق مذکورہ واقعہ کے سلسلے میں کورٹ آف انکوائری ابھی مکمل نہیں ہوئی ہے اور نہ ہی ریاستی پولیس نے ان کے خلاف درج کیاگیا کیس واپس لیا ہے ،تاہم انہیں یہ اعزاز جنگجوئوں کے خلاف لگاتار کارروائیاں انجام دینے کے عوض دیا گیا ہے۔اگر فوجی ترجمان کی دلیل کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت سے کوسوں دور لگتی ہے کیونکہ جس علاقہ میں فی الوقت مذکورہ میجر تعینات تھے ،وہاں حالیہ برسوں میں عسکریت پسندوں کے خلاف کوئی بڑا آپریشن نہیں ہوا ہے اور نہ ہی کوئی مسلح تصادم آرائی ہوئی ہے بلکہ یہ علاقہ عسکریت کے حوالے سے انتہائی پر سکون تصور کیاجارہا تھا ۔ایسے میں مذکورہ میجر نے جنگجوئوں کے خلا ف کونسا ایسا معرکہ سر کیا تھا ،جس پر وہ اعزاز کے حقدار بن گئے تھے ۔ظاہر ہے کہ اس اعزاز کا تعلق براہ راست 9اپریل کے واقعہ سے ہی ہے اور اگر اخباری اطلاعات پر بھروسہ کیاجائے تو وزارت دفاع نے ہی مذکورہ میجر کی عز ت افزائی کی سفارش کی تھی کیونکہ وزارت کے اعلیٰ حکام کے مطابق نوجوان کو فوجی جیپ کے ساتھ باندھنا میجر کی حاضر دماغی کی دلالت کرتا ہے اور اس پر انہیں سزا دینے کی بجائے شاباشی کی جانی چاہئے کیونکہ ان حکام کے مطابق اس آفیسر نے اس طرح کا اقدام اٹھاکرانسانی جانوں کو ضائع ہونے سے بچالیا ۔وزارت دفاع کے سینئر افسران نے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ فوج میں مقصد حاصل کرنا زیادہ ضروری ہوتا ہے،ہوسکتا ہے کہ مذکورہ آفیسر نے دوسرا طریقہ اختیار کیا ہو لیکن اس سے مقصد مکمل طور پر حاصل ہوا۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک ایسے وقت ،جب پہلے ہی نئی دہلی کشمیر بحران سے نمٹنے کیلئے طاقت کے بے دریغ استعمال پر مقامی اور عالمی سطح پر تنقید کا شکار ہے،وزارت دفاع کو ایسا اقدام کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟۔ جہاں ملکی سطح پر سیاسی حلقوں او ر لیبرل سیول سوسائٹی سے وابستہ افراد حکومت کی موجودہ پالیسی کو استحسان کی نظروں سے نہیں دیکھ رہے ہیں وہیں عالمی سطح پر نہ صرف کئی ممالک نے کھل کر بھارت کو ہدف تنقید بنایا بلکہ اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انسانی حقوق نے بھی حالیہ ایام میں کشمیر کے معاملہ پر بھارت کی خبر لی ہے بلکہ کئی معتبر بین الااقوامی جرائد نے بھی نئی دہلی کو کٹہرے میں کھڑا کردیا ہے ۔ایسا لگ رہا ہے کہ میجر گگوئی کو اعزاز سے نواز کر نئی دلّی میں بیٹھے ارباب بست و کشاد نے کشمیری عوام کو یہ واضح پیغام دینے کی کوشش ہے کہ ان کے نزدیک بحالی امن کا ہر طریقہ معتبر ہے ،چاہئے وہ انسانی حقوق کی صریح پامالیوں سے ہی عبارت کیوںنہ ہو۔دراصل اس پیش رفت کے نتیجہ میں کشمیری عوام کی نفسیات کو چوٹ پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے اور ان پر باور کرانے کی سعی کی گئی ہے کہ زمینی سطح پر سرگرم فورسز اہلکاروں کی پشت پر پوری حکومت کھڑی ہے اور احتجاج پر آمادہ عوام کو زیر کرنے کیلئے انہیں نہ صرف ہر حربہ آزمانے کی مکمل آزادی حاصل ہے بلکہ ان کی پیٹھ تھپتھپانے سے بھی گریز نہیں کیاجائے گا۔بدیہی طور پر یہ حرکت برسراحتجاج کشمیری عوام کو خوفزدہ کرنے کی ایک کڑی لگتی ہے تاہم دنیا میں سب سے بڑی جمہوریت کا دعویٰ کرنے والے ملک کیلئے ایسا فیصلہ کسی بھی طور قابل تحسین قرار نہیں دیا جاسکتا ہے ۔جمہوریت کی لہر پر سوار ہوکر بھارت عالمی سطح پر جس مرتبے او ر مقام کیلئے سرگردا ں ہے ،اُس کیلئے ایسی حرکات نہ صرف شرمناک ہیں بلکہ وقار کے مجروح ہونے کا بھی باعث بن سکتی ہیں۔اب اگر عالمی سطح سے ذرا نیچے آکر مقامی سطح پر اس فیصلہ کے مضمرات پر غور کیاجائے تو اس میں کہیں فائدہ نظر نہیں آرہا ہے بلکہ اس کے صرف نقصانات ہی گنے جاسکتے ہیں۔عالمی سطح پر بھارت کی جمہوری شبیہ داغدار ہوتو ہو لیکن مقامی سطح پر اس طرح کی حرکات بیزاری کی لہر میں مزید شدت کا باعث بن جاتی ہیں ۔بھلے ہی اس فیصلہ کے ذریعے نام نہاد اجتماعی ضمیر کی تشفی ہوئی ہو تاہم زمینی سطح پر یہ فیصلہ کشمیر میں وفاق اور ریاست کی گرفت کو مزید کمزور کرنے کا محرک بن سکتا ہے اور اس کے نتیجہ میں جوان اور عوام کے درمیان دوریاں بڑھ سکتی ہیں ۔اب جبکہ فیصلہ ہوچکا ہے تو یقینی طور پر اس کا منفی ردعمل بھی سامنے آئے گا اور نئی دہلی کو اس کیلئے بھی تیار رہنا چاہئے ۔اربا ب اقتدار کو یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ ہرعمل کا ردعمل ہوتا ہے اور جتنا زیادہ طاقت کا استعمال کرکے پھر طاقت کو جائز ٹھہرایاجائے گا ،اتنا ہی کشمیرکا عام شہری اس نظام سے باغی ہوتا جائے گا اور ایسی ہوا کا چلنا کسی بھی طور دلّی کے مفاد میں نہیں ہوسکتا ہے ۔