ساحل ڈار
خاندان مرد اور عورت کے نکاح کے ذریعے وجود میں آتا ہے،جسے شوہر اور بیوی کا نام دیا گیا۔اس کی بنیاد محبت پر ہوا کرتی ہے۔اسلام زوجین کے درمیان محبت و شفقت ،احترام و ہمدردی اور ایثار واعتماد کا رشتہ قائم کرتا ہے۔اس لئے اس نے شوہر اور بیوی کو ایک دوسرے کا حریف نہیں ،بلکہ معاون و مددگار قرار دیا اور اسے لباس سے تعبیر کیا۔لہٰذا جس طرح لباس جسم کے داغ دھبوں کو چھپا دیتا ہے اسی طرح میاں بیوی کو ایک دوسرے کی کمی کوتاہی کو درگزر کردینا چاہئے اور دوسروں سے شکایت ہرگز نہیں کرنا چاہئے۔ اسلام نے میاں بیوی کی سرگرمیوں کے دائرے متعین کردئے ہیں کہ دونوں میں سے ہر ایک کا مخصوص کردار اور دائرہ مکمل ہے،جس میں رہ کر کام کرنا ہے اور ہر ایک سے اس کے تعلق سے سوال کیا جائے گا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ سلم کا ارشادہے کہ تم میں سے ہر شخص ذمہ دار ہے اور ہر شخص سے اس کے متعلقین اور ماتحت لوگوں کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔حاکم اپنی ریعت کے حوالے سے ذمہ دار ہے ،مرد اپنے گھر والوں کے متعلق ذمہ دار ہے اور عورت اپنے شوہر کے گھر اور اپنے بچوں کی ذمہ دار ہے تم میں سے ہرشخص ذمہ دار ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی معاشرے میں بیوی ،بچوں کی کفالت اور تعلیم و تربیت کا ذمہ دار مرد ہے اور بیوی کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ بچوں کی نگہداشت کرے اور ان کی بہترین تعلیم و تربیت کا اہتمام وانتظام کرے اور گھر کو خوش اسلوبی سے سنبھالے ۔حقیقت یہ ہے کہ خوشگوار ازدواجی زندگی کے لئے میاں اور بیوی دونوں کو ہی اسلامی تعلیمات پر عمل کرنا ضروری ہے۔اللہ تعالی نے عورت کو بلند مقام و مرتبہ عطا فرمایا اور شوہر کو حکم دیا کہ وہ اس کے ساتھ انصاف سے کام لے، اس کا احترام و اکرام کرے اور اچھے سلوک سے پیش آئے ،خواہ وہ اسے ناپسند کرتا ہو۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ’’اور ان کے ساتھ بھلے طریقے سے زندگی بسر کرو،اگر وہ ناپسند ہو تو ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں پسند نہ ہو، مگر اللہ تعالیٰ نے اس میں بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو‘‘۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی عورت کے بارے میں خیر کی وصیت کی ہے ۔مختلف احادیث اس طرف بحسن وخوبی اشارہ کرتے ہیں۔چنانچہ مفہوم حدیث ہے کہ عورت کے ساتھ اچھا سلوک کرو ،عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے اور پسلیوں میں سب سے زیادہ ٹیڑھا حصہ اوپر کاہے، اگر اسے سیدھا کرو گے تو ٹوٹ جائے گی اور اگر چھوڑے رہو گے تو ٹیڑھی ہی رہے گی، پس عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔‘‘عورت شوہر کی خواہش و مرضی کے مطابق ہمیشہ ایک حال پر قائم نہیں رہ سکتی ،اس لئے شوہر کو یہ سمجھنا چاہئے کہ بیوی اس کی فطرت ، عادت اور مزاج میں سے ہے اس لئے وہ اس پر اپنی مرضی کے مطابق زیادہ سختی نہ کرے، بلکہ اس کے نسوانی مزاج کا خیال رکھتے ہوئے اس کی لغزشوں ،کوتاہیوں اور غلطیوں سے درگزر اور چشم پوشی سے کام لے۔عورت سے حسن سلوک کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کس قدر خیال تھا، اس کا انداز و اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ نے خطبہ حجۃ الوداع میں بھی اس کا خیال رکھا اور فرمایا: ’’لوگو! سنو! عورتوں کے ساتھ اچھے سلوک سے پیش آئو تمہیں ان کے ساتھ سختی کا برتائو کرنے کا کوئی حق نہیں ،سوائے اس صورت کے جب ان کی طرف سے کوئی کھلی ہوئی نافرمانی سامنے آئے اگر وہ ایسا کر بیٹھیں تو پھر خواب گاہوں میں ان سے علیحدہ رہو اور انہیں مارو تو ایسا نہ مارنا کہ کوئی شدید چوٹ آئے اور پھر جب وہ تمہارے کہنے پر چلنے لگیں تو انہیں خواہ مخواد ستانے کے بہانے نہ ڈھونڈو‘‘۔اسلام نے مسلمانوں کو اپنی بیویوں کے ساتھ محبت اور خوش اخلاقی سے پیش آنے کی تعلیم دی ہے۔ اس کی ایک شکل یہ بھی ہے وہ جب گھروں میں داخل ہوں تو سلام کیا کریں۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے: جب گھروں میں داخل ہوا کرو تو اپنے اہل خانہ کو سلام کیا کرو، یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمارے لئے مبارک اور پاکیزہ تحفہ ہے۔
رابطہ۔آثار شریف جناب صاحب آنچار،سرینگرکشمیر
(نوٹ۔مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاًاپنی ہیں اور انہیںکسی بھی طورکشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)