سرینگر//محکمہ موسمیات کی جانب سے مزید سردی پڑنے کی پیش گوئی کے ساتھ ہی گرم ملبوسات کے داموں میں اضافہ ہو گیا ہے جس کے باعث جہاں نئے گرم کپڑے خریدنا عام آدمی کی دسترس سے باہر ہوگیا ہے وہیں پرانے کپڑے خریدنا بھی مشکل ہو گیاہے ۔شہر سرینگر میں پرانے کپڑے فروخت کرنے کے سب سے بڑے بازار’’ سنڈے مارکٹ میں ہر قسم کے چھوٹے بڑے استعمال شدہ پرانے گرم کپڑے،سوئیٹر،گرم شالیں، جوتے، کمبل ، مفلر اور گرم کوٹ دستیاب رہتے ہیں اور شہر ودیہات سے لوگوں کی بڑی تعداد بازار سے گرم ملبوسات کی خریداری کرنے آتی ہے تاہم مہنگائی کے اثرات سنڈے مارکٹ کے پرانے کپڑوں کی قیمتوں پر بھی پڑی ہے ۔ایک خاتون نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا" مہنگائی میں اضافہ کے سبب ہی تو ہم جیسا متوسط طبقہ یہاں سے خریداری کرنے آتا ہے مگر امسال تو حد ہی ہوگئی قیمت بہت بڑھ گئی ہے ، پرانے کپڑے خریدنا بھی مشکل ہوگیا ہے۔انہوں نے کہا کہ سردی بڑھ جانے سے گرم کپڑے خریدنا بھی ضروری ہے جس کی وجہ سے ان کی قیمتیں اور بھی بڑھ جائینگی اور شروع میں ہی گرم کپڑے خریدلیں تو اچھا ہے۔ایک کمبل فروخت کرنے والے نے بتایا کہ" ہم جو مال مارکیٹ میں فروخت کیلئے لاتے ہیں وہ تین گنا مہنگا ہوگیا ہے، اس لیے ہم مہنگا فروخت کرنے پر مجبور ہیں"۔گرم جیکٹس فروخت کرنے والے نے کہا کہ' یہ مال دوسرے ملکوں سے آتا ہے تو ہمیں اس کا کسٹم اور ٹیکس ڈیوٹی بھی دینی ہوتی ہے، حکومت کی جانب سے ڈیوٹی ٹیکس میں بھی اضافہ ہوگیا ہے تو مال بھی اسی حساب سے مہنگا بک رہا ہے ۔خریداری کے دوران ایک طارق احمد نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا’’ امسال کم کپڑے خریدے ہیں کیوں کہ جیب اجازت نہیں دے رہی ہے کہ پرانے کپڑے ہی کھل کر خرید سکیں، پچھلے سال کی نسبت دگنی مہنگائی ہوگئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ00 5 روپے میں جو گرم جیکٹ فروخت ہوتی تھی وہی اب1ہزار میں فروخت کی جاتی ہے جبکہ 100 روپے کی سوئیٹر اب 350روپے میں فروخت کی جاتی ہے ۔دانش احمد کاکہنا ہے کہ ’’ سستے داموں گرم کپڑوں کی خریداری ایک زمانے میں غریب اور متوسط گھرانے کے افراد ہی کیا کرتے تھے مگر اب امیر اور ایلیٹ کلاس طبقہ بھی سنڈے مارکٹ کا رخ کرتا ہے، جس کا سبب مہنگائی ہے۔ انہوں نے کہا کہ نوجوان طبقہ ویسٹرن ڈیزائنز کے کپڑے زیب تن کرنا پسند کررہاہے جس کی وجہ سے اکثر نوجوان لڑکیوں سمیت لڑکے بھی فیشن کی مناسبت سنڈے مارکٹ سے خریداری کرتے ہیں، کیونکہ بقول ان کے پرانے کپڑے سستے ہوتے ہیں اور کوالٹی کے حساب سے بھی معیاری ہوتے ہیں۔بچوں کے گرم کپڑوں میں زیادہ رش تھا مگر وہاں بھی قیمت پر بحث چل رہی تھی،کچھ خریدار تو قیمت پوچھ کر ہی آگے بڑھ جاتے اور کچھ خریدار قیمت میں کمی کروانے پر اصرار کرتے اور مجبورا ً مہنگے کپڑے اور جوتے خریدرہے تھے۔