وادیٔ کشمیر کا ہر فردِ بشراس بات سے واقف ہے کہ ایک طویل عرصے سے مہنگائی کے بحران نے پورے جموں و کشمیر کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ متوسط طبقے کے افراد اور غرباء اس بحران سے بہت بُری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ اشیائے خورد نوش کے نرخوں میں روز افزوں اضافے کی وجہ سے عوام اشیائے ضروریہ کو خریدنے سے قاصر ہیں ۔ پیٹرول ایندھن ، ایل پی جی گیس ،بجلی اور دیگر ضروریات زندگی کے سامان کی کے داموں میں بھی دن بدن اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔ ادویات اور شفا خانوں کے دیگر اشیاءکی خرید بھی تمام افراد کے لئے دشواری کا سبب بن چکی ہےجبکہ بنیادی و اعلیٰ تعلیم بھی عوام کے لئے عذاب دہ بن چکی ہے۔ تعلیمی فیس ،کتابوں کے اخراجات ایک عام انسان کے لئےہی نہیں بلکہ متوسط درجے و متمول طبقے کے لیے بھی مشکل ترین مرحلے بن چکے ہیں۔ زندگی کے مختلف شعبہ جات میں مہنگائی کے اس بحران کی وجہ سے ہر شخص ،ہر طبقہ اور ہر سماج پریشان ہیں۔ اب ایک ہی سبیل ہمارے سامنے رہ چکی ہے کہ ہم متحد ہو کر اس بڑھتی ہوئی مہنگائی اور روز افزوں قیمتوں کے اضافے کے خلاف آواز بُلند کریں تاکہ جن لوگوں کو ہم نے اپنے ووٹوں سے اپنے علاقوں سے نمائندے چُن کر ایوان ِ بالا تک پہنچایا ہے ،وہ کسی حد تک بیدارہوجائیں اور عوام کی آواز بن کر اس مہنگائی کے بحران کو کسی نہ کسی طرح قابو میں لانے کا سامان کروائیں تاکہ عوام اس عذاب سے باہر نکلے اور اُن کے لیے کسی نہ کسی حد تک آسانیاں پیدا ہوجائیں۔ ہمیں اپنے نمائندگان پر یہ بات بھی باور کرانی چاہئے کہ وہ اپنے اثر ورسوخ کے ذریعےیہاں کی سرکاری انتظامیہ کو عوام کے لئے فری طبی سہولیات کو مہیا کرائے جانے کے ذرائع کو مزید فروغ دینے کے اقدامات اٹھائیں تاکہ یہاں کے بے کس اور بے بس تمام مریضوں کے لئے طبی سہولیات سے مستفیض ہونے کے عمل آسان بن جائیں۔کیونکہ دیکھا تو یہی جارہا ہے کہ جب بھی کسی مریض کا کوئی آپریشن کیا جاتا ہے تو اُسے آپریشن میں لگنے والے بیشتر سامان بازار سے خریدنے پڑتے ہیں،جوکہ مہنگے داموں پر ملتی ہیں۔اسی طرح ادویات کے نرخوں اور دیگر اشیاء کی بھی نرخوں کو کم سے کم داموں میں عوام کو بہم پہنچانے کی تدابیر کو اختیار کیا جائے۔ مزید برآںان عوامی نمائندگان پر لازم ہے کہ وہ طبی سہولیات کا فنڈز، تعلیمی فروغ کو ملنے والی امداد، غرباء و مساکین کو ملنے والے راشن کی فراوانی، شاہراہوں کی درستگی اور پختگی اور از سرِ نو تعمیر کے لئے ملنے والی سرکاری رقومات جیسے تمام نکات پر سوالات اُٹھائیں اور عوام الناس کے سامنے جواب دہ ہوجائیں۔ ظاہر ہے کہ مہنگائی کے بحران نے یہاں کی انسانی زندگی اجیرن بنا دی ہے اور جب تک ان تمام مسائل کے خلاف ایک متحدہ آواز بلند نہیں ہوگی ، ان پریشانیوں اور مسائل کا کوئی حل نکلنے والا نہیں ہے۔ کیونکہ اصل زندگی ہم جیتے ہیں، حیات کے ٹھوکریں ہم کھاتے ہیں،پریشانیوں سے نبرد آزما ہم ہوتے ہیں، مسائل سے ہم اُلجھتے ہیں، اس کا تلخ تجربہ اُن حکمرانوں کو نہیں ہوتا ہے جنہیں ہم ایوان بھیج چکے ہوتے ہیں یا بھیجتے آ رہے ہیں۔ بغور دیکھا جائےتو مختلف اشیاء پر لگائے جانے والے ٹیکس اور املاک ، پیشوں ، تعلیم رفاہ عامہ پرو صول کئے جانے والے ٹیکس کی شرح عوام کے حق میں نا معقول ہے۔ اس کا بوجھ برسر روزگار اور نجی سرمایہ کاروں اور بے روزگار اور سب ہی افراد کے لئے متحمل نہیں۔ جن افراد کو کمائی کے کوئی ذرائع میسر نہیں، ان کےلئے گھر ٹیکس ، روڈز ، روشنی وپانی ٹیکس کی ادائیگی مشکل ترین ہوچکی ہے ۔ پینے کا صاف شفاف پانی کی فراوانی دیہی اور شہری علاقوں میں مشکل ہو چکی ہےاورجن علاقوں میں سڑکیں خستہ ہوچکی ہیں ان کی مرمت کا کام بھی نہیں ہو پا رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی قصبوں اور مضافات میں سڑکیں جس قدر سرعت سے بنائی جانی چاہیے تھیں، نہیں بنائی جا رہی ہیں ۔ کئی علاقے اندھیروں میں ڈوب گئے ہیں اور وہاں روشنی کا معقول انتظام نہیں ہے۔ عوام سے جو ٹیکس وصول کیا جاتا ہے انہی پیسوں سے یہ کام باآسانی کئے جا سکتے ہیں لیکن اس رقم کو مناسب طور سے ان کاموں کے لیے استعمال میں نہیں لیا جا رہا ہے ۔ان کاموں میں تیزی لانے کے لیے عوام کو آگاہ کرنا ضروری ہے اور اُن کو اس کام کے لیے بیدار کرنا بھی ہمارا فرض ہے۔