ریاستی عوام کے لئے کمر توڑ مہنگائی میں کوئی کمی آنے کی بجائے ہر گزرتے دن کے ساتھ اس میں شدت وحدت پیدا ہورہی ہے۔ ظاہر ہے غریب عوام کی قوت خرید کمزور سے کمزور تر ہو نے کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں کہ ان کیلئے زندگی اجیرن ہو۔اس وقت بازاروں کا حال یہ ہے کہ ساگ سبزی سے لے کرگز ر اوقات کے لئے درکار دیگر اشیاء تک کی قیمتیں واقعتاً آسمان کو چھو رہی ہیں۔ اس بیچ جب کبھی سرکاری نرخ نا موں کی شکل میں خوردنی چیزوں کے جو نرخ مشتہر کئے جاتے ہیں ان کی وقعت ردی کا غذ سے زیادہ نہیں ہوتی کیونکہ خرید وفروخت میں عملاًان کی طرف ادنیٰ سی بھی توجہ نہیں کی جا تی۔ دوکاندار تو دوکاندار ، خریدار بھی یہ قبل ازوقت جا ن رہے ہوتے ہیں کہ کسی چیز کی جو قیمت ریٹ لسٹ پر دی گئی ہے اس کا بیچنے یا خریدنے میں قطعاًکو ئی عمل دخل نہیں۔ کاروباری معاملات میںآج کل یہی حال عیاں وبیاں انداز میں ہر جگہ دکھا ئی دے رہا ہے۔ ایک طرف گراں فروشی ، منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی کا دوردورہ ہے اور دوسری طرف ان حوالوں سے بدانتظا می اپنے عروج پر ہے۔ بلاشبہ صارفین کے حقوق کی نگہداشت اور انہیں خود غرض کا روباری حلقوں سے بچانے کے لئے سرکاری صیغہ موجودہے مگر ہے یہ مکمل طور مفلوج۔ گو سر کاری عملہ کے پاس قاعدے قانون نافذ کر انے کے کلی اختیار ات ہیں پھر بھی ملین ڈالر سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ وہ گراں فروشوں کے مافیا کا توڑ کیوں کر نے لگے ؟ انہی کے دم قدم سے ان کااپنا حقہ پانی چلتا رہتاہے۔ نتیجہ یہ کہ عام آ دمی کو گیس ،تیل خاکی، ساگ سبزی اور دال چاول ، دودھ گوشت ، پو لٹری اور انڈے با زاروں میںسر کاری نرخوں پر نہیں بلکہ دوکانداروں اور ریڑھی بانوں کی منہ ما نگی قیمتوں پر حاصل کر نا پڑ رہی ہیں۔ ایڈمنسٹریشن کی تغافل شعاری کی اصل وجہ یہ ہے کہ برسہا برس سے یہا ں ایک ایسا سیاسی کلچر پنپ چکاہے جس کی عنا یات سے معمولی سرکاری اہل کار سے لے کر اعلیٰ افسرتک کومواخذے کاڈر یا جوابدہی کااحساس ان کی موٹی کھال کو چھوکر نہیں جا تا۔ لہٰذا ان کوکبھی یہ چٹی نہیں پڑتی کہ ذراسا لاج شرم کر کے عوامی راحت کو تھوڑی بہت اہمیت دیں۔ بر عکس اس کے اپنے اپنے دائرہ اختیار میں ان کو یہ فکر لگی رہتی ہے کہ کسی طرح اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال سے عام آدمی کاجینا مختلف حربوں سے دشوار تر کر دیں اور اپنی جیبیں موٹی کریں۔ قاعدہ قانون ان کے لئے موم کی گڑیا جیسا ہو تا ہے جس کو جب بھی اورجہاں بھی چاہیں اپنے اغراض کے خم خانے میں موج مستی کرتے ہوئے کوئی بھی موڑ دیں۔ اس نراج کے سبب عام صارفین کو بازاروں میں جو مختلف النو ع ما ریں سہنا پڑرہی ہیں،ان کے طفیل غر باء کا زندہ رہنا دشوار سے دشوار تر ہو رہا ہے۔ یہ بات بلا مبالغہ کہی جا سکتی ہے کہ حکو مت عوام کو درپیش روز مرہ زندگی کے مختلف مسائل کا حل ڈھونڈ نکا لنے میںنا کام ہو چکی ہے اورانتظامیہ کے تمام تردعو ؤ ں کے با وجود حسب سابق اس خطہ ٔ زمین میں مہنگائی کا بھوت بلاکسی مزاحمت کے اپنا ڈیرا جمائے بیٹھا ہے۔ چنانچہ اسی ناہنجار صورت حال کی آڑ میں بلیک ما رکیٹنگ کا عروج ، با زارو ں میں گراں فروشی کی وبا اورمنافع خوری کا راج تاج اپنی جوبن پر ہے۔ یہ سب کچھ ایسی لاعلاج بیما ر ی بن چکی ہے جس سے عام آ دمی کا جینا دوبھر ہو رہا ہے۔ ان حالات میں حکومتی انتظامیہ کی فعالیت سے عام آ دمی کا کچھ نہ کچھ بھلا ہو تا ، لیکن اس کا وجود بھی محض علامتی سا دکھا ئی دے رہا ہے۔ بنا بریں عام آ?د می بازاروں میں ساری بلا ؤں کا تختۂ مشق بن رہا ہے۔ اس کی قسمت کتنی کھوٹی ہے اس کا اندازہ یو ں بھی لگا یاجاسکتا ہے کہ عام آ دمی اگر سڑکو ں پر آکر اپنے روزمرہ مسائل کی جانب ارباب ِ حل وعقد کی تو جہ مبذول کرا نے کی بھول کر تا ہے تو اتظامیہ غفلت کی نیند سے جاگ اٹھنے کی بجا ئے اس پر غصہ ہوکر غصب ڈھا تی ہے اور اپنے تر کش میںہر وہ تیر ان کے سینے میں پیو ست کر تی ہے جس کے درد سے جمہو ریت کراہتی ہے اور عوام کی حا کمیت کا تصور پا ما ل ہو تا ہے۔ لا قانونیت کا یہ حال ہے کہ نا نو ائی روز بروزروٹی کا وزن کم کر رہے ہیں ، قصاب گو شت کے سرکا ری ریٹ لسٹ کی جگہ اپنی من مانی کے خوگرہیںہی ، اس وقت وہ گٹھیا قسم کا گوشت کھلے بندوں اپنے ریٹ لسٹ کے مطابق ہی بے یارومددگارگاہکو ں کے ہاتھ میں تھماکراپنے لالچ کا پیٹ بھر رہے ہیں۔ بد انتظا می کایہ حا ل احوال کہ نمائشی طور بھی مارکیٹ چیکنگ اسکا رڈ کا کہیں نام ونشان نہیں دِ کھتا۔ لہٰذا مہنگائی کا دیو ہیکل بھو ت عام آدمی کے کمزور کندھو ں پرزبو ں حالی کا بو جھ بلا روک ٹوک لا د تاجا رہا ہے۔ موجودہ حکومتی انتظامیہ کا یہ انو کھا اسلوبِ کا ر دیکھ کر عام آ دمی کویہ سوال چکرا تا ہے کہ متواتر سرکا ری محصولات سے لے کر اشیا ئے خور دنی تک کی قیمتیں آسمان تک بڑ ھا کر عام آدمی کو بلی کا بکرا بنا نے میں اسے ذ ہنی سکون کیو ں محسو س ہورہا ہے؟ صارف اپنی یہ درگت ہو تے ہو ئے دیکھ کر کبھی حرف شکا یت زبان پر لا نے کی بھو ل کر ے تو پو لیس ڈنڈوں سے اس کی زبا ن بند ی کرائی جا تی ہے،پانی کا مطا لبہ کرے تو مار کھا تا ہے، بجلی سپلا ئی میں معقولیت کی مانگ کرے تو گراں گو شی کی بے نیازی پا تا ہے،سڑک اور نالی کی تعمیر و مرمت میںبے انتہاتسا ہل کارونا روئے تو کسی حاکم با لا کے کا ن پر جو ں تک نہیں رینگتی، رشوت خو ری،بد نظمی یااپنی بے بسی کا دکھڑا سنانے کی بے جاجرأت کرے تو شر پسند اور امن دشمن کہلا تا ہے۔ بہر صورت اگر جموں و کشمیرکی گورنر حکو مت واقعی چا ہتی ہے کہ یہ فاسد کلچر عام آ دمی کا بیڑہ مزید غرق نہ کر ے تو اسے بدنظمی اور قانو ن شکنی کے مرتکب ہر فرد بشر کو جو ابدہ بنا نا چا ہیے ، بنا کسی رو رعایت کے ہر شخص کے ساتھ قا نون کے مطا بق صورت حال سے نپٹنا چاہیےاور عوامی خدمات کے شعبے میں فوراً سے پیشتر سدھار لا یا جا نا چا ہیے تا کہ پبلک سروسز گارنٹی ایکٹ ایک کاغذی گھوڑا ثابت نہ ہو ،نیز گرا ں بازاری کے ذمہ دار عنا صر کو قانو ن کی خوراک پلا کر اس عام تا ثر کو جھٹلا یا جا نا چاہیے کہ خو د حکو متی انتظامیہ مہنگا ئی کوبڑ ھا وا دینے والو ں کی پشت پنا ہی کر رہی ہے ۔ساتھ ہی جہاں مارکیٹ چیکنگ اسکارڈ کو جمود کے لحاف سے نکال باہر کیا جا ئے وہیںبلیک مارکیٹنگ کر نے والوں کو کڑی سے کڑ ی سزائیں دی جا ئیں تاکہ دوسرے عبرت پکڑیں۔ اگر عملا ً یہ سب کیا گیا تویہ عام آ دمی کے تئیںموجودہ حکومت کا جذ بہ?ٔ خیرسگالی سمجھا جا ئے گا جس کی صرف ایک جھلک دیکھنے کے لئے لوگ گز شتہ سالہا سال سے زائد عرصہ سے ترس رہے ہیں۔