سردیوں کا تلخ اور تکلیف دہ موسم جلوہ گر ہوتے ہی جہاں کشمیریوں کو درپیش مسائل میں اضافہ ہوناایک روایتی مسئلہ ہے وہیں اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میںدن بہ دن اضافے سےاُن کی زندگی مشکل سے مشکل تر بنتی جارہی ہے ۔اشیائے ضروریہ اور روزمرہ کے استعمال کی اشیاء عام آدمی کی قوتِ خرید سے باہر ہوتی جارہی ہے۔چنانچہ معاشی بحران اور انحطاط کی وجہ سے پہلے ہی یہاں کی معاشی ترقی کی رفتار بُری طرح متاثر ہوچکی ہے، جس کی وجہ سے بے شمار لوگ روز گار سے محروم ہوگئے ہیں اور کئی پرائیویٹ کمپنیوں ،کارخانوں اور اداروں میں تنخواہوں اور اُجرتوں میں کٹوتی کیجاچکی ہے،جس سے عام آدمی کی آمدنی بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہی ہے ۔غذائی اجناس کی قیمتوں میں مسلسل بڑھوتری سے ایسا لگتا ہے کہ ان قیمتوں پر قابو پانے کی سرکاری انتظامیہ میں کوئی سکت ہی باقی نہیںرہی ہے،اس لئے اس تعلق سے وہ فکر مند بھی نہیں دکھائی دے رہی ہے۔کشمیری عوام کو اِس وقت جس بےلگام اور کمر توڑ مہنگائی کا سامنا ہے، اُس کا شائد یو ٹی انتظامیہ کو بھی ادراک ہو،لیکن جناب گورنر صاحب نے اس حوالے سے مجاز حکام کو اس پر قابو پانے کے لئےکوئی ہدایت نامہ جاری کیا ہے یا نہیں ،اس کے متعلق کوئی جانکاری سامنے نہیں آئی ہے۔ اس بحران کو ٹالنےکی ہزار کوششوں کے باوجود یہ ٹلنے کا نام نہیں لے رہاہے۔ظاہر ہے کہ ناجائز منافع خور طبقے کے خلاف آج تک کوئی بھی فیصلہ کُن مہم شروع نہیں کی جاسکی،جس کے نتیجے میںیہ طبقہ اپنے روایتی طریقوں پرپوری طرح سےسرگرمِ عمل ہے۔ ایک تعجب خیز امریہ بھی کہ مقامی فصل سمیت درآمد کی جانے والی روزِ مرہ استعمال ہونے والی اشیاءکی مجموعی مقدار طلب کے مقابلے میں کم تو نہیں ،پھر یہ کہاں جا رہی ہے کہ مارکیٹ میںان کی قیمتیںدوگنی یا تِگنی وصول کئے جانے کے بعد بھی، اشیائے ضروریہ کی فروختگی سے وابستہ ہر چھوٹا بڑاکاروباری ،تاجر ،دکاندار ،یہاں تک کہ ریڑہ بان بھی ناشکرانی کا اظہار کرتا رہتا ہے۔ یہ حقیقت بھی اپنی جگہ اٹل ہے کہ یہاں کے معاشرے میں ایمانداری ،حق پرستی اور انصاف کا فقدان ہے،جس کے نتیجہ میں عام لوگوں کے مسائل میں دن بہ دن اضافہ ہوتا رہتا ہے۔سچ یہ بھی ہے کہ وادیٔ کشمیر میں ایک طویل عرصے سے نامساعد حالات سےمعاشرے کا ہر فرد بُری طرح متاثر تو ہوچکا ہے ، لیکن حیرت کا مقام ہے کہ اس حقیقت کو جانتے ہوئے بھی کشمیری معاشرے کے بیشترافراد ایک دوسرے کو ٹھگنے اور لوٹنے میں مصروف ہیںاوراپنے غلط طرز ِعمل کو جاری رکھ کر اخلاقی و ذہنی پستی کا مظاہرہ کررہے ہیں ۔وادیٔ کشمیر کے اُمت ِمسلمہ کی زندگی پر نظر ڈالی جائے تو یہ حقیقت سامنے آجاتی ہے کہ ہماری زندگی اور اعمال روحانیت اور مقصدیت سے خالی ہے،اولاً ہماری اکثریت بے عملی ،بد اعملی،بے راہ روی اور اباحیت کا شکار ہے اور جو لوگ اسلامی اعمال کے پابند ہیں ،اُن کے اعمال مقصد اور روح سے خالی ایک رسم بن کر رہ گئے ہیں ۔جس کے نتیجہ میں جہاں ارباب و اقتدار اور کاروباری لوگ ایمان ،دیانت اور فرض جیسی مبنی بر حق باتوں کو خاطر میں لانے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے وہیں سرکاری و غیر سرکاری ملازم طبقہ ،تاجر پیشہ افراد ،دکاندار ،مزدور ،کاشت کار اور دیگر مختلف پیشوں سے وابستہ تقریباً سبھی لوگ بھی اپنے مذہبی اور دینی مقام و مرتبے سے بے نیاز ہوکر صرف دنیاوی فوائد ہی کو سمیٹنے کی کوششوں میں مصروف ِ عمل ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ جموں و کشمیر کو یونین ٹرییٹریز بنانے کے بعد بھی مہنگائی کے جِن کو قابو کرنے کی کوئی ٹھوس کوشش نہیں کی جاسکی ہے۔اگرچہ جموں و کشمیر کو یونین ٹریٹری بنانے کے لئےلوگوں کی ترقی ،خوشحالی اور بہتری اور سہولت کی فراہمی کے دعوے کئے گئے تھےلیکن تا حال یہ سبھی دعوے کھوکھلے ثابت ہورہے ہیں۔جبکہ تلخ حقیقت یہ ہے کہ وادیٔ کشمیر کے عام لوگوں کو بنیادی سہولیات کی فراہمی اور درپیش مسائل کے حل کے لئے جس طرح کی صورت حال کا سامنا ماضی میں کرنا پڑتا تھا،آج زیادہ تر معاملات میںعوام کو ماضی سے بھی زیادہ مشکلات ومصائب جھیلنا پڑتے ہیں۔ جبکہ ناجائز منافع خور مافیا ایک طاقتور شکل اختیار کرچکا ہے۔ اس صورتحال کی زد میں بہت سی ادویات بھی آرہی ہیں خصوصاً رجسٹرڈ کمپنیوں کےوہ ادویات جو پہلےہی بہت مہنگی ہیں اور عام بیماریوں کے لئے لازمی ہوتی ہیں، ان کی مارکیٹ میں مصنوعی قلت پیدا کر کے من مانی قیمتوں کا تعین کیا جاتا ہے جبکہ ڈپلی کیٹ ادویات کی اچھے داموں میں حصولیابی کی بہتات ہے ۔ چنانچہ ناجائز منافع خوری اور اسمگلنگ کے خلاف کو ئی سخت قانون شایدنافذ ہی نہیں اور نہ ہی اس کے مرتکب افراد کو سزائیں دینے کا کوئی قابل ذکر کیس ابھی تک سامنے آیا ہے۔اسلئے کھلے عام یہ سارے کام ہو رہے ہیں اورغریب عوام کو ان عناصر کے رحم و کرم پر چھوڑدیا گیا ہے۔اشیائے ضروریہ ،خاص طور پر کھانے پینے کی چیزوں کے ساتھ ساتھ ادویات کی قیمتوں میں کئی سو گنا اضافہ کرنے کا فائدہ کن کی جیبوں میں جا رہا ہے، یہ بھی گورنر انتظامیہ ہی کو معلوم ہوگا؟غریب آدمی کے لئے پہلے دو وقت کی روٹی کھانی مشکل ہو رہی تھی اب تو ایک وقت کی روٹی بھی نا ممکن ہو رہی ہے،اور یہ سب اُن عام لوگوں کے ساتھ ہو رہا ہے جن کی 65فیصد تعداد خط غربت کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ پرائیویٹ ملازمین اور سفید پوش لوگ تو چکی کے دو پاٹوں کے درمیان پس رہے ہیں۔سرکاری انتظامیہ اگر فوری طور پر مہنگائی اور ناجائز منافع خوری پر قابو پانے اور کنٹرول کے کے اقدامات نہیں کرتی ہے تو پھر غریب طبقہ کے لئے جینا مزید دوبھر ہوجائے گا۔