یو این آئی
سرینگر// وادی کشمیر میں گراں بازاری اور مہنگائی نے سنگین رخ اختیار کر لیا ہے جس کے نتیجے میں عام لوگوں کا جینا از بس مشکل ہو کر رہ گیا ہے ۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ سرینگرجموں قومی شاہراہ کی مسلسل بندش کے نتیجے میں اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں دو سو فیصد تک کا اضافہ کیا گیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ مرغ فی کلو 200 روپے تک جا پہنچا ہے جبکہ سبزیوں اور دالوں کی قیمتیں بھی آسمان کو چھو رہی ہیں۔ اس صورتحال نے خاص طور پر غریب اور متوسط طبقے کو شدید مشکلات میں مبتلا کر دیا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ پالک جو عام حالات میں 30روپے فی کلو دستیاب تھی، اب 70روپے سے اوپر بیچی جا رہی ہے ۔ ساگ اور مٹر کی قیمتوں میں بھی دوگنا اضافہ درج کیا گیا ہے ، جبکہ دالیں عام شہریوں کی پہنچ سے باہر ہو چکی ہیں۔ لال بازار کے ایک شہری ریاض احمد میر نے بتایا’’ہم روزانہ کی بنیاد پر سبزیاں خریدنے جاتے ہیں لیکن اب حالات یہ ہیں کہ 500روپے میں اتنی سبزی بھی نہیں آتی جو چار افراد کے گھر کیلئے ایک دن کافی ہو۔
ان کا کوئی پوچھنے والا نہیں‘‘۔ حول کے ایک رہائشی ذوالفقارعلی نے کہا’’مرغ فی کلو 200 روپے میں مل رہا ہے جبکہ دو ہفتہ پہلے یہی مرغ 110 روپے فی کلو فروخت ہورہا تھا۔ یہ سیدھی سیدھی لوٹ ہے اور پرائس کنٹرول کمیٹیاں صرف نام کی ہیں‘‘۔ عوامی حلقے اس بات پر شدید برہمی کا اظہار کر رہے ہیں کہ پرائس کنٹرول کمیٹیاں قیمتوں کو اعتدال پر رکھنے میں پوری طرح ناکام ہو گئی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بازاروں میں نہ کوئی چیکنگ ٹیم دکھائی دیتی ہے نہ ہی گراں فروشوں کے خلاف کوئی کارروائی ہوتی ہے ۔ اس کا خمیازہ سیدھا عام شہریوں کو بھگتنا پڑ رہا ہے ۔ دوسری جانب وادی کے کئی علاقوں میں حالیہ سیلابی صورتحال نے کاروبار کو مزید مفلوج کر دیا ہے ۔ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں لوگ پہلے ہی مشکلات سے دوچار ہیں اور اب مہنگائی نے ان کی کمر توڑ دی ہے ۔ ادھر شہریوں نے انتظامیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فوری طور پر گراں فروشوں کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائے اور مارکیٹ چیکنگ کو یقینی بنائے تاکہ قیمتوں کو اعتدال پر لایا جا سکے ۔ انہوں نے کہا کہ اگر یہ صورتحال اسی طرح جاری رہی تو آنے والے دنوں میں وادی میں غذائی بحران پیدا ہوسکتا ہے ۔ قابل ذکر ہے کہ وادی کشمیر کی 90فیصد رسد جموں سے آنے والی شاہراہ پر منحصر ہے ۔ جب بھی شاہراہ بند ہوتی ہے تو سب سے پہلے اس کا اثر ضروری اشیاء کی قلت اور قیمتوں کے بے قابو ہونے کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے ۔ عوامی حلقے مسلسل اس بات کا تقاضا کر رہے ہیں کہ سرکار یا تو متبادل راستے بحال کرے یا پھر اشیائے ضروریہ کی ترسیل کے لیے خصوصی انتظامات کرے تاکہ غریب اور متوسط طبقے کو اس گران بازاری کے عذاب سے نجات مل سکے ۔