ڈاکٹر جوہرؔ قدوس
تاریخ کے اوراق پلٹیں،تو معلوم ہوتا ہے کہ واقعہ معراج اعلان نبوت کے دسویں سال اور ہجرت ِ مدینہ سے ایک سال پہلے مکہ میں پیش آیا۔دیکھیے! کتاب’معارج النبوۃ‘کے مصنف اِس واقعے کو کس خوبی سے بیان کرتے ہیں،لکھتے ہیں : ماہِ رجب کی ستائیسویں رات ہے۔ اللہ تعالیٰ فرشتوں سے ارشاد فرماتا ہے: اے فرشتو! آج کی رات میری تسبیح بیان مت کرو، میری حمدو تقدیس کرنا بند کردو، آج کی رات میری اطاعت و بندگی چھوڑ دو اور آج کی رات جنت الفردوس کو لباس اور زیور سے آراستہ کرو۔ میری فرمانبرداری کا کلاہ اپنے سر پر باندھ لو۔ اے جبرائیل! میرا یہ پیغام میکائیل کو سنا دو کہ رزق کا پیمانہ ہاتھ سے علیحدہ کردے۔ اسرافیل سے کہہ دو کہ وہ صور کو کچھ عرصہ کے لئے موقوف کردے۔ عزرائیل سے کہہ دو کہ کچھ دیر کے لئے روحوں کو قبض کرنے سے ہاتھ اٹھالے۔ رضوان سے کہہ دو کہ وہ جنت الفردوس کی درجہ بندی کرے۔ داروغہ ٔ جہنم سے کہہ دو کہ دوزخ کو تالا لگادے۔ خلد بریں کی روحوں سے کہہ دو کہ آراستہ و پیراستہ ہوجائیں اور جنت کے محلوں کی چھتوں پر صف بستہ کھڑی ہوجائیں۔ مشرق سے مغرب تک جس قدر قبریں ہیں، ان سے عذاب ختم کردیا جائے۔ آج کی رات شب ِ معراج ہے، آج کی رات میرے محبوب حضرت محمد ﷺ کی آمد آمد ہے،سب لوگ استقبال کے لئے تیار ہوجاؤ۔
چشم زدن میں عالم بالا کا نقشہ بدل گیا
الٰہی احکام کی تعمیل کی گئی۔چشم زدن میں عالم بالا کا نقشہ بدل گیا۔ حکم الٰہی ہوا:’’ اے جبرائیل! اپنے ساتھ ستر ہزار فرشتے لے جاؤ۔‘‘ بارگاہِ الہٰی سے حکم سنتے ہی جبریل امین ؑ سواری لینےجنت میں جاتے ہیں،اورایسی سواری کا انتخاب کرتے ہیں، جو آج تک کسی شہنشاہ کو بھی میسر نہ ہوئی ہوگی۔ میسر ہونا تو دور کی بات ہے، دیکھی تک نہ ہوگی۔ اس سواری کا نام براق ہے۔ تفسیر روح البیان میں ہے کہ نبی کریمؐ سے پہلے براق پر کوئی سوار نہیں ہوا۔
ذراتصور کیجیے !ماہِ رجب کی ستائیسویں شب کس قدر پرکیف رات ہے۔ مطلع بالکل صاف ہے ۔فضاؤں میں عجیب سی کیفیت طاری ہے۔ رات آہستہ آہستہ کیف و نشاط کی مستی میں مست ہوتی جارہی ہے۔ ستارے پوری آب و تاب کے ساتھ جھلملا رہے ہیں۔ پوری دنیا پر سکوت و خاموشی کا عالم طاری ہے۔ نصف شب گزرنے کو ہے کہ یکا یک آسمانی دنیا کا دروازہ کھلتا ہے۔ انوار و تجلیات کے جلوے سمیٹے حضرت جبرائیلؑ نورانی مخلوق کے جھرمٹ میں جنتی براق لئے آسمان کی بلندیوں سے اتر کر حضرت ام ہانی ؓ کے گھر تشریف لاتے ہیںِ جہاں ماہِ نبوت،نورِ رسالت حضرت محمدمصطفےٰ ؐ محو خواب، آنکھیں بند کئے، دلِ بیدار لئے آرام فرمارہے ہیں۔ حضرت جبریل امین ؑہاتھ باندھ کر کھڑے ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ اگر آواز دے کر جگایا گیا تو بے ادبی ہوجائے گی۔ فکر مند ہیں کہ معراج کے دولہا کو کیسے بیدار کیا جائے؟ اسی وقت حکم ربّانی آتا ہے :’’ اے جبرائیل! میرے محبوب کے قدموں کو چوم لے، تاکہ تیرے لبوں کی ٹھنڈک سے میرے محبوبؐ کی آنکھ کھل جائے۔ اِسی دن کے واسطے میں نے تجھے کافور سے پیدا کیا تھا۔‘‘ حکم سنتے ہی جبریل امینؑ آگے بڑھتے ہیں اور اپنے کافوری ہونٹ سرکارِ دو عالم ؐ کے پائے ناز سے مس کردیتے ہیں۔یہ منظر بھی کس قدر حسین ہوگا، جب جبرئیل امینؑ نے فخر کائناتؐکے قدموں کو بوسہ دیا۔ حضرت جبرائیلؑ کے ہونٹوں کی ٹھنڈک پاکر حضورانورؐ بیدار ہوتے ہیں اور دریافت کرتے ہیں:’’ اے جبرائیل! کیسے آنا ہوا؟‘‘ عرض کرتے ہیں: ’’یارسول اللہؐ! خدائے بزرگ و برتر کی طرف سے بلاوے کا پروانہ لے کر حاضر ہوا ہوں۔یارسول اللہؐ! اللہ تعالیٰ آپ کی ملاقات کا مشتاق ہے۔ تشریف لے چلئے ۔زمین سے لے کر آسمانوں تک ساری گزر گاہوں پر مشتاق ِ دید کا ہجوم ہاتھ باندھے کھڑا ہے۔ (معارج النبوۃ:از:مولانا معین واعظ الکاشفی الہروی ؒ، متوفی ۹۰۷ھ)
چنانچہ آقائے نامدارﷺ نے سفر کی تیاری شروع کی۔ اس موقع پر حضرت جبرائیلؑ نے آپؐ کا سینہ مبارک چاک کیا اور دل کو دھویا۔ مسلم شریف میں ہے کہ حضرت جبرائیل ؑ نے سینہ چاک کرنے کے بعد قلب ِ مبارک کوآبِ زم زم سے دھویا اور اس کوسینۂ مبارک میں واپس رکھ کر سینہ بند کردیا۔(مسلم شریف، جلد اوّل صفحہ: 92)۔علماء نے لکھا ہے کہ سینہ ٔاقدسؐ کے شق کئے جانے میں کئی حکمتیں پوشیدہ ہیں، جن میں ایک حکمت یہ ہے کہ قلب ِ اطہر میں ایسی قوت ِ قدسیہ شامل ہوجائے ،جس سے آسمانوں پر تشریف لے جانے اور عالم سماوات کا مشاہدہ کرنے، بالخصوص دیدارِ الہٰی کرنے میں کوئی دِقت اور دشواری پیش نہ آئے۔ پھر آپؐ کے سر انور پر عمامہ باندھا گیا۔ اس موقعہ پرحضرت جبرائیلؑ نے سرور کونینؐ کو نور کی ایک چادر پہنائی۔ زمرد کی نعلین مبارک پاؤں میں زیب تن فرمائی،اور یاقوت کا کمر بند باندھا۔(معارج النبوة، صفحہ: 601)۔چند لمحوں کے بعد وہ وقت بھی آگیا کہ سرورِ کونین حضرت محمد مصطفےٰ ؐ براق پر تشریف فرما ہوگئے۔ اُس نے فخر و اِنبساط کا اظہار کیاکہ آج اسے سیاحِ لامکاںؐ کی سواری ہونے کا لازوال اعزاز حاصل ہو رہا ہے۔ حضرت جبرائیل ؑ نے رکاب تھام لی۔ حضرت میکائیل ؑ نے لگام پکڑی۔ حضرت اسرافیلؑ نے زین کو سنبھالا۔ براق کو اِس سعادتِ عظمیٰ پر وجد آ گیا۔ اس پر جبرئیلِ امینؑ نے اس سواری سے فرمایا :’’رک جا! اللہ کی عزت کی قسم تجھ پر جو سوار بیٹھا ہے، آج تک تجھ پر ایسا سوار نہیں بیٹھا‘‘۔
معراج کے واقعہ کو قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اس طرح بیان فرمایا ہے:’’وہ ذات (ہر نقص اور کمزوری سے) پاک ہے، جو رات کے تھوڑے سے حصے میں اپنے (محبوب اور مقرّب) بندے کو مسجدِ حرام سے (اِس) مسجدِ اقصیٰ تک لے گئی، جس کے گرد و نواح کو ہم نے بابرکت بنا دیا ہے، تاکہ ہم اس (بندۂ کامل) کو اپنی نشانیاں دکھائیں، بے شک وہی خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے۔‘‘(سورہ نمبر17بنی اسرائیل :آیت نمبر: 1)
معراج کا عظیم و بے مثال سفر
اب ذراسفرِمعراج کی تفصیلات میںجائیں۔ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاءؒ نے نبی ٔ آخرالزمانؐ کےاس مقدس مرحلہ وار سفر کے باب میں اپنی کتاب’’فوائد الفوائد‘‘میں تین اصطلاحات استعمال کی ہیں،جو یہ ہیں:(۱)اسراء:یعنی مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک کا سفر(۲)معراج:یعنی بیت المقدس سے مرحلہ وار ساتوں آسمانوں اور سدرۃ المنتہیٰ کا سفر(۳)اعراج:یعنی سدرۃ المنتہیٰ سے مقام قاب قوسین تک عروج۔(فوائد الفوائد:جلد4صفحہ:350)
سرورِ کون و مکاں،سردارِ انس و جاںﷺ نہایت شان و شوکت سے ملائکہ کے جلوس میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ کی طرف روانہ ہوتے ہیں۔یہ گھڑی کس قدر دلنواز تھی کہ جب مکاں سے لامکاں تک نور ہی نور پھیلا ہوا تھا، سواری بھی نور تو سوار بھی نور، باراتی بھی نور تو دولہا بھی نور، میزبان بھی نور تو مہمان بھی نور، نوریوں کی یہ نوری بارات فلک بوس پہاڑیوں، بے آب و گیاہ ریگستانوں، گھنے جنگلوں، چٹیل میدانوں، سرسبز و شاداب وادیوں، پرخطر ویرانوں پر سے سفر کرتی ہوئی وادی ٔبطحا میں پہنچی ،جہاں کھجور کے بیشمار درخت ہیں۔ حضرت جبرائیلؑ عرض کرتے ہیں:’’یا رسول اللہؐ!یہاں اُتر کر دو رکعت نفل ادا کیجئے، یہ آپؐ کی ہجرت گاہ مدینہ طیبہ ہے۔‘‘ پہلی منزل پرنفل کی ادائیگی کے بعد پھر سفر شروع ہوتا ہے۔ دوسری منزل طورِ سینا تھی، جہاں اللہ رب العالمین حضرت موسیٰ ؑسے ہم کلام ہوئے تھے۔ اِس جگہ ایک سرخ ٹیلا آتا ہے، جہاں حضرت موسیٰ ؑ کی قبر ہے۔ حضورنبی ٔ کریمؐارشاد فرماتے ہیں کہ معراج کی رات میں سرخ ٹیلے سے گزرا تو میں نے دیکھا کہ وہاں موسیٰ ؑ کی قبر ہے اور وہ اپنی قبر میں کھڑے ہوکر نماز پڑھ رہے ہیں۔ تیسری منزل بیت اللحم تھی، جہاں حضرت عیسیٰ ؑ پیدا ہوئے تھے۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے چوتھی منزل آگئی ،یعنی بیت المقدس ،جہاں قدسیوں کا جم غفیر سلامی کے لئے موجود ہے۔ حوروغلماں خوش آمدید کہنے کے لئے اور تقریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء و مرسلین استقبال کے لئے بے چین و بے قرار کھڑے تھے۔ یہاں امام الانبیاءؐ اُس مقام پر تشریف فرماہوئے ،جسے بابِ محمدؐکہا جاتا ہے۔ حضرت جبرائیل ؑ ایک پتھر کے پاس آئے، جو اُس جگہ موجود تھا۔ حضرت جبرائیل ؑ نے اس پتھر میں اپنی انگلی مار کر اِس میں سوراخ کردیا اور براق کو اس میں باندھ دیا۔(تفسير ابن کثير جلد3، ص7)
اس کے بعدآفتابِ نبوتؐ مسجد اقصیٰ میں طلوع ہوتے ہیں۔ صحن حرم سے فلک تک نور ہی نور چھایا ہوا ہے۔ ستارے ماند پڑچکے ہیں، قدسی سلامی دے رہے ہیں، حضرت جبرائیلؑ اذان دے رہے ہیں، تمام انبیاء و رسل صف در صف کھڑے منتظر تھے کہ نماز کی امامت کون کرائے گا۔ جب صفیں بن چکیں تو حضرت جبرائیل ؑ نے آپؐ کا ہاتھ پکڑ کر آپؐ کو امامت کے لیے آگے کیا۔امام الانبیاء فخر دوجہاں حضرت محمدمصطفےٰؐ امامت فرمانے تشریف لاتے ہیں۔ تمام انبیاء و رسل امام الانبیاءؐ کی اِقتداء میں دو رکعت نماز ادا کرکے اپنی نیاز مندی کا اعلان کرتے ہیں۔ اس کے بعد سرورِ کونین ،تاجدارِ کائناتؐ نوری مخلوق کے جھرمٹ میں آسمان کی طرف روانہ ہوتے ہیں۔خودحضورِپُرنورؐاِرشاد فرماتے ہیں: پھر مجھے اوپر لے جایا گیا۔ براق کی رفتار کا عالم یہ تھا کہ جہاں نگاہ کی انتہاء ہوتی وہاں براق کاپہلا قدم پڑتا۔ فوراً ہی پہلا آسمان آگیا۔ حضرت جبرائیل ؑنے دروازہ کھٹکھٹایا۔ دربان نے پوچھا: کون ہے؟ جواب دیا: جبرائیل! دربان نے پوچھا:تمہارے ساتھ کون ہیں؟ حضرت جبرائیل ؑ نے کہا :خاتم الانبیاء حضرت محمدؐ! دربان نے کہا: مرحبا !! دروازے انہی کے لئے کھولے جائیں گے۔ چنانچہ پہلے آسمان کا دروازہ کھول دیا گیا۔ یہاں آپؐ کا پرتپاک استقبال کیا گیا۔
رسول برحقؐ کوآسمانوں اور جنت کا تفصیلی مشاہدہ کرایا گیا
یہاں سے گزر کر آپ ﷺدوسرے آسمان پر پہنچے۔ پہلے آسمان کی طرح بوّاب نے دوسرے آسمان کا بھی دروازہ کھولا۔دوسرے آسمان پر حضرت عیسیٰ ؑ اور حضرت یحییٰ ؑ نے حضور ؐکو خوش آمدید کہا۔ سلام کا جواب دیا،مرحبا کہا اورآپؐکی نبوت کا اقرار کیا۔اس یادگار ملاقات اور آسمان کے ملکوتی مشاہدات کے بعد آپ ؐ کو تیسرے آسمان کی طرف پہونچایا گیا۔ تیسرے آسمان پر حضورؐ کی ملاقات سیدنا یوسفؑ سے کرائی گئی،جنہوں نے سلام کا جواب دیا،مرحبا کہا اورآپؐکی نبوت کا اقرار کیا۔ تیسرے آسمان کے مشاہداتِ نورانی کے بعد حضورؐ کو چوتھے آسمان پر پہنچایا گیا۔ چوتھے آسمان پر تاجدارِ کائناتؐ کی ملاقات حضرت ادریسؑ سے ہوئی۔انہوں نے بھی سلام کا جواب دیا،مرحبا کہا اورآپؐکی نبوت کا اقرار کیا۔پانچویں آسمان پر حضرت ہارونؑ سےملاقات کرائی گئی۔آپؐ نے سلام کیا،حضرت ہارونؑ نے سلام کا جواب دیا،مرحبا کہا اورآپ ؐکی نبوت کا اقرار کیا۔چھٹے آسمان پر پہنچے ،تو سیدنا موسیٰ ؑ سے ملاقات ہوئی۔آپ ؐ نے سلام کیا۔ حضرت موسیٰ ؑ کی چشمانِ مقدس اشکبار ہو گئیں، سلام کا جواب دیا،مرحبا کہا اورآپ ؐکی نبوت کا اقرار کیا۔ حضورؐ کی عظمت و رفعت کو دیکھ کرحضرت موسیٰ ؑ کی آنکھوں سے رشک کے آنسو چھلک پڑے۔ آپ کی زبانِ اقدس سے بے اختیار نکلا کہ خدائے بزرگ و برتر کے یہ وہ برگزیدہ رسول ہیں، جن کی امت کو میری امت پر شرف عطا کیا گیا۔ یہ وہی رسولِ برحق ؐ ہیں، جن کی امت کے لوگ میری امت کے لوگوں کےمقابلے میں کثرت کے ساتھ جنت میں داخل ہوں گے۔ ساتویں آسمان پر آپؐ کی ملاقات ایک ایسے بزرگ سے ہوئی، جو آپ ؐ سے نہایت مشابہ تھے ۔تعارف پر معلوم ہوا کہ یہ حضرت ابراہیمؑ ہیں۔آپؐ نے سلام کیا،حضرت ابراہیم ؑ نے مرحبا!اے پیغمبر صالح اور اے فرزند صالح سے مخاطب کرکے سلام کا جواب دیااورآپ ؐکی نبوت کا اقرار کیا۔ ( بخاری،مسلم ،مسند احمد )۔حضرت ابراہیم ؑ بیت المعمور سے پیٹھ لگائے بیٹھے تھے،جس میں ہرروز ستّر ہزار فرشتے داخل ہوتے ہیں۔(سیرۃ النبی :علامہ شبلی نعمانی،ج:۳،ص:232)
مشاہداتِ آسمانی کے نورانی جلوؤں ،نیک و بد روحوںکے حالات و کوائف اور جنت کے چشم دید مشاہدے کے بعد تاجدارِ کائناتؐ کو سدرۃ المنتہیٰ کے مقام تک لے جایا گیا ۔یہ وہ مقامِ عظیم ہے جہاں آکر ملائکہ، حتیٰ کہ انبیاء و رْسل کی بھی پرواز ختم ہو جاتی ہے۔ جہاں مقرب فرشتوں کے بھی پرجلتے ہیں۔ گویا ملاقات کا سارا نظام اور عالمِ امکان کی ساری بلندیاں سدرۃْ المنتہیٰ پر ختم ہو جاتی ہیں۔کتابوں میں درج ہے کہ سدرۃْ المنتہیٰ کا مقامِ اولیٰ عالمِ مکان کی آخری حد اور لامکاں کا ابتدائی کنارہ ہے۔جب مہمانِ عرشؐ آگے بڑھنے لگے تو جبرئیلِ امین رک گئے۔ حضورؐنے فرمایا : جبرئیل چلو! تو عرض کیا :اگر میں ایک چیونٹی برابر بھی آگے بڑھا تو (تجلیاتِ الٰہی کے پرتو سے) جل جاؤں گا۔(الیواقیت و الجواہر، 3 : 34:از:مام عبد الوھاب بن احمد علی الشعرانی ؒ (973ھ))۔ سبحان اللہ! حضورؐ کی رفعت و عظمت کا اندازہ لگایئے کہ جہاں شہبازِ سدرہ کے بازو تھک جائیں اور روح الامین کی حد ختم ہوجائے، وہاں سے حضورؐ کی پرواز شروع ہوتی ہے۔
یہ بات قابلِ غور ہے کہ محب اور محبوب کے درمیان تنہائی کی ملاقات میں جو باتیں ہوئیں، اُن کا بیان نہیں فرمایا، لہٰذا محب اور محبوب میں کیا کیا باتیں ہوئیں، اس کلام کی حقیقتوں کی کسی کو کچھ خبر نہیں۔اس میں سے کچھ باتیں ہماری سکت کےمطابق ،ہماری طاقت اور ہمت کےمطابق جو آپؐنےافشاءکردیں ، وہ دنیا والوں کو معلوم ہوگئیں ۔جو افشاءنہیں کیں، اس کی کوئی خبر نہیں۔
(مضمون نگار ،ماہنامہ ’الحیاۃ‘ کے مدیر ِاعلیٰ ہیں)
[email protected]