رفیق احمد قادری
کہتے ہیں کہ مہمان اپنے ساتھ رحمت خداوندی لاتا ہے۔ جس گھر میں مہمان کی تشریف ارزانی ہوتی ہے، اس گھر کو رحمت کے فرشتے سعادت کے چراغ سے روشن کردیتے ہیں۔ یک بیک اس گھر میں نعمتوں کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ مہمان آنے سے پہلے وہ اپنے زرق کو میزبان کے گھر بھیج دیتا ہے۔ اسی کی وجہ میزبان کو مغفرت کی نوید مسرت سنائی جاتی ہے۔ مہمان کی باریابی سے میزبان کو دھری نعمت حاصل ہوتی ہے۔ ایک کشادگی رزق دوسری پروان?ِبخشش۔
اس مادی دور میں بھی ہر قوم وملت میں مہمان نوازی کے گوناگوں طریقے رائج ہیں۔ کوئی احترام وتکریم سے استقبال کرتا ہے تو کوئی رخسار سے رخسار ملاکر اسے خوش آمدید کہتا ہے۔ کوئی گھڑے ہوکر سلامی پیش کرتا ہے تو کوئی مصافحہ ومعانقہ کرکے اس کے اعزاز اکرام کو بجا لاتا ہے۔ یہ سب ہر قوم میں ایک رسم ورواج کے طور پر رائج ہے لیکن اسلام میں مہمان نوازی ایمان کا حصہ ہے۔رسم وروایت سے بالا تر یہ ایک ایسا محبوب وپسندیدہ عمل ہے جس کو قرآن نے خصوصیت کے طور پر بیان کیا۔ ‘’’اے محبوب کیا تمہارے پاس ابراہیم کے معزز مہمانوں کی خبر آئی۔ جب وہ اس کے پاس آ کر بولے ،سلام کہا ،سلام ناشناسا لوگ ہیں۔ پھر اپنے گھر گیا تو ایک فربہ بچھڑا لے آیا پھر اُسے ان کے پاس رکھا ،کہا کیا تم کھاتے نہیں تو اپنے جی میں اُن سے ڈرنے لگا، وہ بولے ڈرئیے نہیں اور اُسے ایک علم والے لڑکے کی بشارت دی(ذاریات:24-28) مفسر علامہ قرطبی ان آیات کریمہ کے تحت ارشاد فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم ؑ پہلے وہ انسان ہیں، جنہوں نے دنیا میں مہمان نوازی کی رسم جاری فرمائی۔ ان کا معمول یہ تھا کہ کبھی تنہا کھانا نہ کھاتے بلکہ ہر کھانے کے وقت تلاش کرتے تھے کہ کوئی مہمان آجائے تو اس کے ساتھ کھائیں۔ علامہ قرطبی نے مزید روایات سے نقل کیا ہے کہ ایک روز کھانے کے وقت حضرت ابراہیم ؑ نے مہمان کی تلاش شروع کی تو ایک اجنبی آدمی ملا، جب وہ کھانے پر بیٹھا تو ابراہیم ؑ نے فرمایا کہ بسم اللہ کہو، اس نے کہا کہ میں جانتا نہیں اللہ کون اور کیا ہے؟ ابراہیم علیہ السلام نے اس کو دسترخوان سے اُٹھا دیا، جب وہ باہر چلا گیا تو جبریل امین آئے اور کہا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم نے تو اس کو کفر کے باوجود ساری عمر رزق دیا اور آپ نے ایک لقمہ دینے میں بھی بخل کیا، یہ سنتے ہی ابراہیم ؑ اس کے پیچھے دوڑے اور اس کو واپس بلایا، اُس نے کہا کہ جب تک آپ اس کی وجہ نہ بتلائیں کہ پہلے کیوں مجھے نکالا تھا اور اب پھر کیوں بلا رہے ہیں، میں اس وقت تک آپ کے ساتھ نہ جاؤں گا۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پورا ماجرا بتلا دیا تو یہی واقعہ اس کے مسلمان ہونے کا سبب بن گیا، اس نے کہا کہ وہ ربّ جس نے یہ حکم بھیجا ہے بڑا کریم ہے، میں اس پر ایمان لاتا ہوں، پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ گیا اور مؤ من ہو کر باقاعدہ بسم اللہ پڑھ کر کھانا کھایا۔ (تفسیر قرطبی)
اسی عظیم الشان عادت کریمہ کی وجہ سے حضرت ابراہیم ؑکو ابو الضیفان کہا جاتا ہے۔ آقائے نامدارصلی اللہ علیہ وسلم بھی بڑے مہمان نواز تھے۔ خود اپنے ہاتھوں سے مہمانوں کو کھلاتے پلاتے ان کی ضروریات کا بھرپور خیال رکھتے تھے۔ مہمان نوازی کی عظمت بیان کرتے ہوئے آقائے دو جہاںؐ فرماتے ہیں جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے، اس کو چاہیے کہ اپنے مہمان کی خاطر داری کرے (مشکوٰۃ) مزید رسول کریم ؐ فرماتے ہیں: ’’جو شخص اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اس کو چاہیے کہ اپنے مہمان کی تعظیم و خاطر داری کرے، مہمان کے ساتھ تکلف و احسان کرنے کا زمانہ ایک دن و ایک رات ہے، اور مہمان داری کرنے کا زمانہ تین دن ہے، اس (تین دن) کے بعد جو دیا جائے گا، وہ ہدیہ و خیرات ہوگا اور مہمان کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ میزبان کے ہاں تین دن کے بعد اس کی استدعا کے بغیر ٹھہرے کہ وہ تنگی میں مبتلا ہو جائے۔‘‘(مشکوٰۃ)جب غار حراء میں پہلی مرتبہ وحی الہٰی نازل ہوئی تھی تو آقائے دوجہاںؐ وحی الہٰی کو اپنے سینۂ?مبارکہ میں پیوست کرکے سیدتنا خدیجہ الکبری ؓکے دولت کدے پر پہنچے تو آپ کا جسم اطہر پسینے سے شرابور تھا، اس وقت حضرتِ خدیجہؓ نے آپ کے چند مخصوص اوصاف کو بیان فرمایا تھا، وہ سنہرے کلمات کچھ یوں تھے! اللہ کی قسم!اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی بھی رُسوا نہیں فرمائیں گے۔ آپ تو صلہ رحمی کرتے ہیں، ناتوانوں کا بوجھ اپنے اوپر لیتے ہیں، محتاجوں کے لیے کماتے ہیں، مہمان کی مہمان نوازی کرتے ہیں اور حق کی راہ میں مصیبتیں اٹھاتے ہیں۔ ام المومنین حضرت خدیجہ الکبریؓ کے یہ الفاظ قابل غور ہیں،’’آپ مہمان کی مہمان نوازی کرتے ہیں‘‘ یہ حضورؐ کی وہ شان ہے جس سے پورا زمانے آج بھی فیض پا رہا ہے۔
ہمارے اسلاف کرام بھی مہمان نوازی اور خاطر داری میں ہمیشہ پیش پیش رہا کرتے تھے۔ اگر ان کی زندگیوں سے ایک ایک واقعہ بھی یہاں پیش کردیا جا ئے تو کافی طویل دفتر تیار ہو جائے گا۔ ایک شخص نے دیکھا کہ حضرت علی ؓ رو رہے ہیں، اُس نے سبب پوچھا تو آپؓنے فرمایا کہ ’’سات دن سے کوئی مہمان نہیں آیا، مجھے ڈر ہے کہ کہیں حق تعالیٰ نے میری اہانت کا ارادہ تو نہیں کرلیا۔‘‘ (احیاء العلوم)امام شافعیؒ جب امام مالک ؒ کے یہاں جا کر بطور مہمان ٹھہرے تو امام مالکؒ نے نہایت عزت و احترام سے انہیں ایک کمرہ میں سلا دیا۔ سحر کے وقت امام شافعی نے سنا کہ کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا اور بڑی ہی شفقت سے آواز دی۔’’آپ پر خدا کی رحمت ہو، نماز کا وقت ہو گیا ہے۔‘‘امام شافعی فوراً اٹھے، دیکھا تو امام مالکؒ ہاتھ میں پانی کا بھرا ہوا لوٹا لئے کھڑے ہیں۔ امام شافعی کو کچھ شرم سی محسوس ہوئی، امام مالکؒ نے نہایت محبت بھرے لہجے میں کہا۔ ’’بھائی! آپ پریشان خاطر نہ ہوں۔ مہمان کی خدمت ہر میزبان کے لئے سعادت ہے۔(سیرۃ مالک) معلوم ہوا کہ ہمارے اسلاف کس انداز میں مہمانوں کی قدر بجالا رہے تھے۔ آج اسی قدردانی کی کمی ہے۔ نہ دعوتوں کی کمی نہ تقریبات کی کمی اور نہ ہی کھلانے پلانے میں کوتاہی، اگر کسی چیز میں کمی ہو تو ایک دوسرے کی عزت و آبرو کی تعظیم وتکریم میں ہے۔
[email protected]