ارشادِ نبویؐ ہے:جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے، اسے چاہیے کہ وہ مہمان کی خاطر تواضع کرے۔(صحیح بخاری) مہمانوں کی خاطر و مدارات کرنا انبیاءؑ کی سنت ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاءؑ کا جامع اور افضل الرسل فرمایا ہے۔ آپؐ کی پاکیزہ سیرت میں مہمان نوازی کی صفت اتنی اعلیٰ تھی کہ اس کی مثال نہیں ملتی۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات مبارکہ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے،جن میں آپؐ نے مہمان نوازی کے اعلیٰ ترین معیار کا نمونہ قائم فرمایا۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے، وہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے، جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لاتا ہے، تو وہ اپنے پڑوسی کی عزت کرے اور جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لاتا ہے، وہ اپنے مہمان کا اکرام کرے۔ (صحیح مسلم) ایک موقع پر آپﷺ نے حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے فرمایا: تمہارے مہمانوں کا تم پر حق ہے۔(صحیح بخاری)
مہمان نوازی کو ایک فرض قرار دیتے ہوئے رسول اکرمﷺ نے فرمایا:جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ مہمان کی عزت کرے۔ ایک دن اور ایک رات تک اس کی (مہمان کی) خدمت تو اس کا انعام شمار ہوگی، جب کہ تین دن تک مہمان نوازی ہوگی، اس کے بعد کی خدمت صدقہ ہے۔ ساتھ ہی اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ مہمان کے لیے مناسب نہیں کہ وہ تین دن سے زیادہ ٹھہرا رہے اورمیزبان کو تکلیف میں ڈالے۔(سنن ابودائود)
جب ہم آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ کا مطالعہ کرتے ہیں تو آپؐ کی حیات ِطیبہ میں مہمان نوازی کے بے شمار واقعات پاتے ہیں۔ آنحضورؐ کا یہ معمول تھا کہ آپؐ کے گھر جب کوئی مہمان آتا، تو جو بھی بہتر سے بہتر میسر ہوتا، مہمان کی خدمت میں پیش فرماتے۔ بعض اوقات کھانے کے دوران اگر کوئی آجاتا تو اسے بے تکلفی سے اپنے ساتھ شامل فرما لیتے۔ صحابہؓ میں جو بھی انتظامی ڈیوٹیاں تقسیم ہوتیں، ان میں سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے ذمے بھی کچھ نہ کچھ ذمے داری لیتے۔
جب کافی تعداد میں مہمان آجایا کرتے تو آپؐ، صحابہؓ میں مہمانوں کو تقسیم فرما دیتے اور اپنے ساتھ مہمانوں کو گھر لے آیا کرتے۔ ابتدائی زمانہ غربت کا تھا ،نیز آپؐ کو صحابہؓ کی فاقہ کشی کا علم تھا، اس لیے جب بھی کھانے کے ظاہری اسباب میسر آتے، چاہے وہ تھوڑے سے ہی ہوں، آپؐ اس یقین کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ میری دعا سے برکت ڈالے گا، صحابہؓ کو بلوا لیتے اور ان لوگوں کو بھی بلوا لیتے، جو بھوکے وہاں موجود ہوتے تھے، تاکہ ان کی بھی مہمان نوازی ہو جائے۔ بسا اوقات آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ہاں مہمان ٹھہرائے اور ان کے لیے مستقل خوراک کا انتظام فرمایا۔ بعد ازاں جب وفود کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا تو آپؐ ان کی بھی مہمان نوازی کا انتظام فرماتے۔ ہر موقع پر آپؐ اس تلاش میں رہتے کہ کسی طرح مہمان کی خدمت کا موقع ہاتھ آئے۔
حضرت ابوشریح ؓ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں : رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا: ’’ جو شخص اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو، اسے چاہیے کہ وہ اپنے ہمسایے کی تکریم کرے اور جو شخص اللہ تعالیٰ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو ،اسے چاہیے کہ وہ اپنے مہمان کی جائزہ بھر ( یعنی خوب اعزاز و اکرام کے ساتھ ) تکریم کرے۔ عرض کیا گیا :’’ یا رسول اللہؐ ! ’’جائزہ‘‘ کیا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا : ایک دن رات ( مہمان کا خصوصی ) اعزاز و اکرام کرنا، مہمان نوازی تین دن، تین رات تک ہوتی ہے اور جو ان کے بعد ہو ،وہ صدقہ شمار ہوتی ہے، جو شخص اللہ تعالیٰ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو، اُسے چاہیے کہ اچھی بات کرے ،ورنہ خاموش رہے۔ ‘‘ ( الادب المفرد)
حضرت عقبہ بن عامر ؓ سے مروی ہے کہ رسولِ اکرمؐ نے ارشاد فرمایا : ’’ جو شخص مہمان نوازی نہ کرے ،اس میں کوئی خیر نہیں ۔‘‘حضرت سمرہؓ فرماتے ہیںکہ ’’حضورِ اقدسﷺ مہمان کی ضیافت کا حکم فرمایا کرتے تھے۔ ‘‘ (مجمع الزوائد )حضرت ابو کریمہ السامیؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا : ’’ مہمان کی رات کو خاطر داری کرنا ہر ایک مسلمان پر واجب ہے۔ جس نے کسی کے گھر میں رات گزاری، وہ شخص اس گھر والے پر ایک قسم کا قرض ہے، اگر چاہے تو اسی دن اس قرض کو ادا کرے (یعنی وہاں رات گزار ے) اور اگر نہ چاہے تو اسے چھوڑ دے۔‘‘(اور وہاں رات نہ گزارے)۔ (الادب المفرد )
مہمان کاخصوصی اعزاز و اکرام ایک دن ایک رات ہے، اور مہمانی تین دن تین رات ہے، مہمان 4کے لیے یہ بات جائز نہیں کہ وہ اتنا طویل قیام کرے کہ جس سے میزبان مشقت میں پڑجائے۔‘‘ ( بخاری، مسلم )اللہ تعالیٰ ہمیں مہمان نوازی کے حوالے سے آنحضرت ؐ کے اسوۂ حسنہ کو اپنانے اور اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)