مدثر شمیم
دنیا بھر میں سیاحت کو دوستی، امن اور بین الاقوامی تعلقات کا ایک خوبصورت ذریعہ مانا جاتا ہے۔ مہمان نوازی ہماری ثقافت کا وہ روشن پہلو ہے جس پر ہمیں ہمیشہ فخر رہا ہے ۔مگر حالیہ اندوہناک واقعہ، جس میں متعدد غیر ریاستی سیاحوں کو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنا کر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، نہ صرف ہماری اس روایتی پہچان کو داغدار کر گیا، بلکہ پوری قوم کے اجتماعی ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ پہلگام،کشمیر کی خوبصورت وادی، جو صدیوں سے جنت کا دوسرا نام سمجھی جاتی رہی، 22 اپریل 2025 کو ایک اندوہناک سانحے کے باعث خون میں نہا گئی۔ پہلگام کے بیسرن علاقے میںدیگر ریاستوں سے آئے کئی سیاح، جو یہاں قدرتی حسن سے لطف اندوز ہونے آئے تھے، ایک سفاک حملے کا نشانہ بنے۔ اس سانحے میں کئی قیمتی جانیں ضائع ہوگئیں جبکہ متعدد سیاح شدید زخمی ہوئے۔
ان بے گناہ مہمانوں کا قصور صرف اتنا تھا کہ وہ امن، خوبصورتی اور دوستی کا پیغام لے کر آئے تھے۔ مگر پہلگام کی خاموش وادی میں ان کی چیخوں نے وہ گونج پیدا کی جو اب دنیا بھر میں سنی جا رہی ہے۔ ان کے قتل سے نہ صرف انسانیت زخمی ہوئی بلکہ کشمیر کی شناخت ، بھارت کی ساکھ اور پورے خطے کی مہمان نوازی پر ایک سنگین سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔
وہ لوگ جو ہماری سر زمین کو محبت ، تاریخ ، ثقافت اور قدرتی حسن کی تلاش میں آئے، انہیں نفرت، تشدد اور موت کے تحفے میں واپس بھیجا گیا۔ سیاح، جو اپنی دنیا سے کچھ دنوں کیلئے خوبصورتی اور سکون کی تلاش میں نکلتے ہیں ، اُن پر بزدلانہ حملہ کرنا دراصل انسانیت کی روح کو روند ڈالنے کے مترادف ہے۔ مقتولین کی تصویریں۔۔۔! جن میں سے کچھ خون آلود لاشیں تھیں۔ ہر ذی شعور دل کیلئے قیامت سے کم نہ تھیں۔ ایسی ہولناکیاں صرف ان متاثرہ خاندانوں کا درد نہیں ، بلکہ ہماری اجتماعی بے حسی، ناکام حکمرانی اور ٹوٹے ہوئے سماجی ڈھانچے کا نوحہ ہیں۔ ہمیں خود سے سوال کرنا ہوگاکہ کیا ہم واقعی ایک محفوظ، مہمان نواز اور پُر امن معاشرہ ہیں؟
سیاحت نہ صرف معاشی ترقی کا ذریعہ ہے، بلکہ ثقافتوں کو جوڑنے اور عالمی ہم آہنگی کو فروغ دینے کا ایک ذریعہ بھی ہے۔ جب مہمانوں کو ہمارے ہاں تحفظ میسر نہ ہو، تو یہ پوری قوم کی ساکھ پر ایک بد نما داغ بن جاتا ہے۔ یہ واقعہ نہ صرف انسانی اقدار کی پامالی ہے بلکہ اسلام جیسے پُر امن مذہب کی روح کے بھی سراسر منافی ہے۔ دین ِ اسلام میں ایک بے گناہ انسان کا قتل پوری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے، جیسا کہ قرآنِ مجید میں سورۃ المائدہ (آیت 32) میں فرمایا گیا:’’ جس نے کسی انسان کو بغیر کسی جان کے بدلے یا زمین میں فساد کیے بغیر قتل کیا، گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کیا‘‘۔ اسلام نے نہ صرف انسانی جان کی حرمت کا درس دیا ہے، بلکہ مسافروں ، سیاحوں ، غیر مسلموں، حتیٰ کہ دشمنوں کے ساتھ بھی حسنِ سلوک کی تعلیم دی ہے۔ پیغمبر اسلامؐ نے فرمایا:’’ مسافر کی دعائیں قبول ہوتی ہیں، اس کے ساتھ بھلا کرو‘‘۔
پہلگام میں پیش آنے والا یہ واقعہ نہ صرف انسانیت بلکہ اسلام کے پُر امن پیغام پر بھی ایک بد نما داغ ہے۔ ایسے عناصر جو اس ظلم کے مرتکب ہیں، نہ انسان کہلانے کے مستحق ہیں، نہ مسلمان۔ریاستی حکومت، قانون نافذ کرنے والے ادارے اور کشمیری سوسائٹی پر تین اہم ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں:
۱۔ قاتلوں کو فوری گرفتار کر کے مثالی سزا دی جائے۔
۲۔ وادی میں سیاحوں کے تحفظ کو فول پروف بنانے کے لیے ہنگامی اقدامات کیے جائیں۔
۳۔ تعلیمی، مذہبی اور سماجی پلیٹ فارمز پر عدم برداشت، انتہا پسندی اور نفرت کے خلاف مئو ثر مہمات چلائی جائیں۔
اگر آج ہم نے سنجیدگی نہ دکھائی، تو کل یہ آگ ہمارے اپنے گھروں تک پہنچ سکتی ہے۔ پہلگام کی فضا، جو کبھی زندگی کا نغمہ گاتی تھی، آج ہمیں خاموش سے پکار رہی ہے۔ یہ وقت خاموش رہنے کا نہیں بلکہ انسانیت کو بچانے کے لیے متحد ہونے کا ہے۔
(کالم نگار، تجزیہ کار اور انسانی حقوق کے موضوعات پر تحریر کے لیے معروف)
[email protected]