Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
مضامین

مہجورؔ۔ انقلابی اور ولولہ انگیز شاعر شخصیات

Towseef
Last updated: May 10, 2025 12:17 am
Towseef
Share
14 Min Read
SHARE

عابد کبرویؔ

وادی کشمیر میں ہر دور میں ایسی بہت سی شخصیات جنم لیتی رہی ہیں جنہوں نے مذہبی، سماجی اور علمی و ادبی لحاظ سے اپنی گراں قدر خدمات کے ذریعے اپنے پیچھے گہرے اثرات و نقوش چھوڑے ہیں۔ کسی نہ کسی علاقے میں کوئی نہ کوئی علمی و فکری پیکر کی حامل شخصیت ضرور جنم لیتی رہی ہے۔ اسی طرح کی ایک شخصیت کو اس باغِ ارم نے جنم دیا جن کا شخصی راج کے خلاف کشمیری عوام کو بیدار کرنے میں اہم کردار ہے۔
ہم بات کر رہے ہیں اس شاعرِ کشمیر کی جن کا نامِ پیرزادہ غلام احمد مہجورؔ ہیں۔’’تاریخِ اقوامِ کشمیر‘‘میں آپ کے مختصر حالات درج ہیں۔ مہجورؔ صاحب کا آبائی وطن وہی کشمیر ہے جواپنے حسن و جمال، رعنائی و کشش، شبابی و شادابی، میں عالمی شہرت رکھتا ہے اور جس کی مدح و ثنا میں فارسی شاعری کے نغز گو شاعر عرفی شیرازیؔ نے یہ کہہ کر وادی کے صحت افزا ، خوش گوارماحول کو مستند کر دیا۔؎

ہر سوختہ جانے کہ بہ کشمیر در آید
گر مرغ کبا بست با بال پر آید

پیرزادہ غلام احمد مہجورؔ سرینگر سے ۳۸ کلو میٹر دور میتری گام گائوں میں سعیدہ بیگم کے بطن سے ۱۱ ؍اگست ۱۸۸۷ء میں پیدا ہوئے۔ والد صاحب کا نام پیر عبد اللہ شاہ تھا۔ والدہ فارسی تعلیم یافتہ ہونے کے علاوہ فنِ خوش نگاری میں بھی نمایاں تھیں۔ مہجورؔ صاحب کی عمر ایک سال اور دس مہینے سے زیادہ نہ تھی کہ انہوں نے وفات ہوئی۔ بعد میں ان کی پرورش اپنی نانی کے زیر سایہ ہوئی۔مہجور کے والد پیر عبد اللہ شاہ مروجہ تعلیم کے ماہر تھے، مہجورؔ نے ابتدا میں اپنے والد صاحب کی قربت میں رہ کر تعلیم پائی اور بعد میں ترال میں مولانا علی گنائی ، جو معلم ہونے کے علاوہ شعرو شاعری میں ماہر تھے اور تخلّص ’’ عاشق ترالی‘‘رکھتے تھے، کی آموزش گاہ سے مزید تعلیم حاصل کی۔ اس وقت مہجورؔ کی عمر تیرہ برس کی تھی۔مولانا کے ساتھ ان کی وابستگی نے ان کے تخیل کو جِلا بخشی اور شعر لکھنے کا سُلگتا ہوا جذبہ پیدا کیا۔ فارسی تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ انجمن نصرۃالاسلام کی درسگاہ میں مولوی حسین شاہ زیرک کے شاگرد خاص رہے۔ مزید حصولِ تعلیم کے لئے۱۹۰۵؁ء میں پنجاب (امرتسر)روانہ ہوئے۔ان دنوں امرتسر ادبی سرگرمیوں سے گونجتا تھے۔ مہجورؔ نے اپنا فارغ وقت اردو اور فارسی کی تراش خراش میں صرف کیا۔انہیں ایام انھیں اُردو کے چند معروف شاعروں جیسے مولانا بسمل امرتسری ، جو فارسی کے ممتاز سخن ور تھے اور شمس العلماء علامہ شبلی نعمانیؔ جو اردو نقاد اور مورخ تھے، سے رابطہ ہوا۔ یہی سے انہوں نے شاعرانہ تخلص ’’ مہجورؔ ‘‘اختیار کیا۔ ۱۹۰۸ء؁ میں مہجورؔ کشمیر واپس آئے۔ پہلے فارسی پھر اردو میں شعر و شاعری کی مشق جاری رکھی۔

مہجورؔکے والد صاحب چاہتے تھے کہ ان کا بیٹا اپنے پیشے (پیر مریدی)کی پیروی کرے لیکن مہجورؔکی دلچسپیاں مختلف تھیں۔ اسی دوران مہجورؔ صاحب شاہ عبد الرحیم قلندر صفاپوری کی خدمت میں گئے،جو نہایت صاف باطن اور صاحبِ کشف تھے۔انہوں نے مہجورؔ کو بتایا کہ ’’تلاش روزگار کرو خدا تم کو کامیاب کریگا‘‘۔ پنجاب سے واپسی کے بعد مہجورؔ کو محکمہ ریونیوز میں پٹواری کی نوکری مل گئی۔ایک پٹواری کی حیثیت سے انہیں ریاست کے مختلف حصوں بشمول لیہہ اور کارگل کے سرحدی علاقوں میں سال بھر گزارنے کا موقع ملااور مختلف مقامات قیام کے نتیجے میں عام کشمیریوں سے قریبی رابطہ میں آئے، ان کی پریشانیوں کو محسوس کیا اور کشمیری لوک شاعری اور لوک داستانوں کے مٹھاس کو بھی سراہا۔

۱۹۱۸ء؁ میں انہوں نے پہلی غزل کہی اور اس کے داخلی اور خارجی دونوں پہلوئوں سے مہجورؔ کے بلند پایہ پیشرو رسول میرؔ شاہ آبادی کا متبع صاف عیاں ہے۔ ۱۹۳۱ء؁ تا ۱۹۴۵ء؁ کے عرصے کو مہجورؔ کے شعری کیرئر کاسب سے نتیجہ خیز دور قرار دیا جا سکتا ہے۔ ۱۹۴۵ء؁ میں سرکاری ملازمت سے سبکدوشی کے بعد انہوں نے اپنی زندگی کے باقی دن اپنے آبائی گائوں میں گزارے۔ مہجورؔ پہلے کشمیری شاعر تھے جنہوں نے ۸ اپریل ۱۹۵۲ء؁ کو حکومت جموں و کشمیر سے خصوصی اسکالرشپ حاصل کی تھی۔ اسکالرشپ کی پہلی قسط ملنے کے ایک دن بعد ہی انہوں نے ۱۹ ؍اپریل ۱۹۲۵ء؁ کو اس دنیائے فانی سے رحلت فرمائی۔ شاعر کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لئے اُس وقت کے جموں و کشمیر کےنائب وزیر اعظم بخشی غلام محمد نے متری گام کا دورہ کیااور تجویز پیش کی کہ مہجورؔ صاحب کی میت کو جہلم کے دریا کے کنارے سرینگر کے اتھواجن نامی مقام پر دفن کیا جائے۔مہجورؔصاحب کا جنازہ کشمیر کی مشہورخانقاہ ’’ خانقاہِ معلیٰ‘‘سے شروع ہوا اور سرکاری اعزاز کے ساتھ انہیں سپرد خاک کیا گیا۔

کشمیر کے شاعروں میں مہجورؔ کو اعلیٰ مقام حاصل ہے۔ وہ خاص طور پر دو چیزوں کے لئے مشہور ہے۔ سب سے پہلے انہوں نے کشمیری شاعری میں ایک نیا انداز اور دوسرا اس نے ایک نئی فکر متعارف کرائی۔ کشمیری ادب میں مہجورؔ کو نشاۃ الثانیہ کا نقیب کہا جاسکتا ہے جنہوں نے کشمیر کے فکر وفن کو شعورو آگہی کی دولت سے مالامال کر دیا۔مہجورؔنے ایک ایسے نظام میں آنکھ کھولی جب کشمیر کی سرزمین جاگیرداری کے استحصال سے کراہ رہی تھی اور صدیوں کی غلامی نے اہل کشمیر کو مجبوری اورمقہوری کی زنجیروں میں جکڑ کر رکھ دیا تھا۔مہجورؔ نے کشمیری زبان میں آزادی اور ترقی جیسے موضوعات پر نظمیں لکھیںاور اپنی تحریر سے سوئے ہوئے کشمیریوں کو جگا دیا۔ مہجورؔ ایک ایسا شاعر تھے جس نے گلاب کے باغ جیسے مادرِ وطن ، اس کے پہاڑوں، جھیلوں ، نباتات اور حیوانات کے بارے میں نظمیں قلمبند کی اور اس طرح کشمیری شاعری کے کینوس کو وسعت دی۔ بہت کم عرصہ میں کشمیر سے باہر بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔انہوں نے دویندر ستیارتھی کے کہنے پر کشمیری زبان میں نظم لکھنے کی شروعات کی۔لوکچار، ویتستا، گِریس کوُر، ترانہ وطن وغیرہ ان کی مشہور نظمیں ہیں۔

مہجورؔ نے اپنی کئی ابتدائی نظموں میں غیر ملکی علامتوں کو کافی حد تک رد کر دیا لیکن اس نے اپنے بعد کے شعری کیرئر میںگل و بلبل کی روایتی علامتوں کو برقرار رکھا اور روایتی علامتوں کو نئی اہمیت دی تاکہ ان سے حُب الوطنی کا اظہار کیا جا سکے۔ اپنی شاعری کو تازگی بخشنے کے لئے انہوں نے اپنی توجہ روزمرہ کی زندگی کے بظاہر عام پہلوئوں کی طرف مبذول کرائی۔ وہ پہلا کشمیری شاعر تھا جس نے کشمیری عوام پر ڈھائے جانے والے ظلم و ستم کے خلاف ایک طاقتور آواز اٹھائی اور کشمیری عوام کی سیاسی محکومی، معاشی استحصال اور اس کے نتیجے میں ہونے والی تنگ دستی کی طرف توجہ دلائی۔ انہوں نے ڈوگرہ راج سے کشمیر کی آزادی کے لئے سیاسی جدوجہد کے اثرات کو محسوس کیا اور انہوں نے اپنی مختلف نظموں کے ذریعے پسے ہوئے لوگوں کو ان کی صدیوں پرانی نیند سے جگانے کی کوشش کی ،ان میں محکومیت سے آزادی کی جلتی ہوئی خواہش کو ابھارنے اور ان میں سیاسی تڑپ پیدا کرنے کی کوشش کی۔ ان کی شاعری قومی اور ثقافتی تخلیق ِ نو کیلئے ایک خوش گوار آواز میں بدل گئی۔

انہوں نے لوگوں پر زور دیا کہ وہ میدانِ عمل میں کود پڑیں، اپنی نجات کے لئے کام کریںاور آنے والی مشکلات کا سامنا کرنے کے لئے تیار رہیں۔ ایسے ہی جذبات کا اظہار کرنے والی نظم ’’ ولو ہا باغبانونو بہارچ شان پیدا کر‘‘کا قومی ترانہ بن گیا۔
مہجورؔ کی شاعری ان کی زندگی کے دوران تین مختلف عنوانات سے شائع ہوئی، یعنی کلامِ مہجور (اس میں ۷۳ گیت و محبت پر مشتمل ہے)، پیامِ مہجور ؔ (اس میں حب الوطنی اور سیاسی و سماجی نوعیت کے گیت شامل ہیں)اور سلامِ مہجورؔ (اس میں مذہبی اور عقیدت کے گیت شامل ہیں)۔ مہجورؔ کی شاعری رومانوی، سیاسی و حب الوطنی ، وجودیت پسندی اور عقیدت مندانہ ہیں۔ رومانوی نظمیں ان کے شاعرانہ کیرئر کے ابتدائی دور کی نمائندگی کرتی ہیں۔ جن میںوہ انسانی محبت اور اپنے محبوب سے جدائی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے دکھ، تکلیف اور مایوسی کے جذبات کی عکاسی کرتے ہیں۔ سیاسی اور حب الوطنی پر مبنی نظمیں مہجورؔ کے شاعری کیرئر کے آخری مرحلے کی نمائندگی کرتی ہیں۔
مہجورؔ صاحب نے نظم ’’ فریاد ِ بلبل‘‘میں گزشتہ اور گزرے ہوئے سیاسی انقلابات کا نقشہ بلبل کی زبان سے باغبان کو مخاطب کر کے نہایت بلیغ انداز میں کھینچا ہے۔ اُن کی قابلِ ذکر نظموں میں’’ گریسی کوُر‘‘ ہے۔یہاں یہ ذکر کرنا مناسب ہو گا کہ مہجورؔ نے یہ نظم اس وقت لکھی جب کشمیر بنیادی طور پر ایک جاگیردارانہ معاشرہ تھا۔ اس نظم میں دیہی علاقوں کی کسان لڑکی کی تعریف بیان کی گئی ہے۔ کسان لڑکی کو اس کے غیر آراستہ حسن، سادہ طرزِ زندگی، غیر صحت بخش جاگیردارانہ رسوم و رواج سے آزادی اور محدود سماجی رسومات میں اس کی لذت کے لئے سراہا جاتا ہے۔ اس آزادانہ طرزِ زندگی کے پیش نظر لڑکی کا موازنہ جاگیردارانہ طرزِ زندگی سے کیا جاتا ہے۔ جس نے خواتین کو اپنے گھر کے اندر تک محدود رکھا اور انھیں کھلی فضا میں دروازوں سے باہر زندگی کی صحت مند اور پُر مسرت آزادی سے محروم کردیا۔

مہجورؔ صاحب کی بہترین فنی تخلیقات میں نظم ’’ وُزمل ‘‘بھی اہمیت رکھتی ہے جس میں شاعر آسمانی بجلی کو ایک نازک اور خوبصورت خاتون کے طور پر بیان کرتا ہے۔ نظم ایک ہی وقت میں مختلف پہلوئوں کو بیان کرتی ہے۔ مہجورؔ کشمیری و اُردو سے پہلے فارسی میں مشقِ سخن کرتے تھے اور مختلف النوع کی متعدد نظمیں کہی تھیں۔ انہوں نے ایک طویل نظم ’’نالۂ مہجورؔ‘‘ مولانا رومیؔ کے رنگ میں لکھی ہے۔ یہ نظم ’’ حیاتِ رحیم‘‘(مہجورؔ کے مرشد کا تذکرہ)میں شامل ہے۔
اگر ہم مہجورؔ صاحب کی غزل گوئی پر بات کریں تو کشمیری زبان میں آپ کی پہلی ہی غزل نے آپ کو مقبولیت کی بلندیوں تک پہنچا دیا۔ مہجورؔ نے ۱۹۲۶ء؁ کی بہار میں ’’پوشہِ متہِ جانانو ‘‘والی مشہور غزل لکھی ، جس نے ملک الشعراء رابندر ناتھ ٹیگورؔ سے خراج تحسین حاصل کیا۔ اُن کی کشمیری شاعری رسول میر شاہ آبادی کے تتبع سے شروع ہوئی۔ رسول میر شاہ آبادی کو کشمیری غزلوں کا باوا آدم کہا گیا ہے۔مہجور ؔ کی غزل کی زبان کی صفائی، برجستگی ، روانی ، بے ساختہ پن ، سوزو گداز اور سادگی میں کشمیر کے تمام غزل گو شعراء سے ممتاز نظر آتی ہے۔ جب مہجورؔ کی غزل نئے ترنم اور ساز کے ساتھ میدان میں آئی تو ریاست میں مثنوی خوانی کا مزاج کم ہوتا رہا۔مہجورؔ کے کلام کی سب سے بڑی خوبی فصاحت و بلاغت ہے۔ انھیں غزل کی زبان پر پورا پورا عبور حاصل ہےبلکہ آپ نے اس صنف میں نئے نئے اور لطیف محاورے پیدا کئے ہیں۔ مہجورؔ کی غزل ’’باغِ نشاط کے گلو، ناز کران کران ولو ‘‘نے اپنی شہرت و مقبولیت سے کشمیری زبان کے پھیلائو میں بہت مدد کی۔ ہر طبقے کے لوگوں کو معلوم ہو ا کہ کشمیری زبان میں بھی شعر و شاعری کے خوب کرشمے دکھانے کی طاقت موجود ہے۔مہجورؔ صاحب نے شعر وشاعری اور تاریخ نگاری کے سلسلے میںملک کی بڑی بڑی ہستیوں سے تعلقات پیدا کئے۔ علامہ محمد اقبال ؒ کے ساتھ بھی مہجور ؔ کے تعلقات رہے اور کچھ دیر خط و کتابت بھی رہی ۔ مہجورؔ صاحب کی کشمیری زبان و ادب کے لئے نمایاں خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتاہے۔ مہجورؔ کی شاعری آج بھی ہر کشمیری کے لبوں پر ہے، ان کی شاعری کے ذریعے ان کا نام ہمیشہ تابندہ رہے گا۔
رابطہ۔6006795215

Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
جموں و کشمیر کے سرحدوں پر کئی دنوں کے بعد پرسکون رات رہی:فوج
تازہ ترین
ڈوڈہ: تیز رفتار ٹرک نے چرواہے کو کچل ڈالا،کم ازکم 60 بھیڑیں بھی ہلاک
تازہ ترین
ان کی حفاظت کرنا ہر انسان کے لئے لازمی! ان کی حفاظت کرنا ہر انسان کے لئے لازمی!
مضامین
زندگی کی چکا چوند ٹیکنالوجیکل سہولیات کی مرہون ِ منت ! انٹروپی۔ جمادات و نباتات اور انسان وحیوان کی جبلت کا حصہ
طب تحقیق اور سائنس

Related

مضامین

آپریشن سِندور کے بعد جنگ بندی کا اعلان | چند روز کے تنائو کے بعد عوام نے راحت کی سانس لی اظہار خیال

May 12, 2025
مضامین

! جنگ بندی خوش آئند،جنگ سودمند نہیں حال و احوال

May 12, 2025
مضامین

ہندوپاک کے درمیان جنگ بندی | سرحد پر اب امن کی فاختائیں اڑرہی ہیں زاویہ نگاہ

May 12, 2025
مضامین

کتاب:’’سائنسی جنگل کہانی‘‘کا مطالعہ ادب َاطفال

May 10, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?