مہاراشٹر میں پنچایتوں اور کارپوریشنوں کے نتائج سے یہ بات صد فیصد درست ثابت ہوتی ہے کہ ملک کا یہ اکثریتی طبقہ اس مقولے’ منہ میں رام بغل میں چھری‘ پر عمل پیرا ہے۔ وہ مالی اور کاروباری طور پر حد درجہ پریشان ہے لیکن ایسا کیا ہے کہ وہ انہی کو ووٹ دینے پر مجبور ہے جو اْن کے پیٹ پر لات ماررہے ہیں، یہ غائر تحقیق کا موضوع ہے۔ اب تو علی الا علان یہ کہتے سنا جا رہا ہے کہ بی جے پی کو راجیہ سبھا میں اکثریت دلوانا بھی اس(اکثریتی طبقے) کی ذمہ داری ہے کیونکہ موجودہ حکومت راجیہ سبھا میں اقلیت میںہونے کی وجہ سے کام نہیں کر پا رہی ہے۔ ایسا بھکتوں کا ماننا ہے۔ اتر پردیش کے بقیہ تین مراحل کے۱۴۱؍ سیٹوں پر ہونے والے انتخابات کو وہ اسی تناظر میں دیکھتے ہیں۔ انہیں اِن انتخابات(میونسپل) کے نتائج حد درجہ حوصلہ فراہم کر رہے ہیں۔وہ ہر قیمت پر بی جے پی کو راجیہ سبھا میں اکثریت دلوانا چاہتے ہیں تاکہ بی جے پی کھل کر (مسلمانوں کے خلاف) کھیل کھیل سکے۔ الیکشن کمیشن کیا یہ نہیں دیکھ رہا ہے؟ کیا اس کی آنکھوں پر بھی پٹی بندھی ہوئی ہے؟ کیا یہ مناسب نہیں تھا کہ الیکشن کمیشن مہاراشٹر یا کہیں اور کے ہونیوالے مقامی انتخابات کے نتائج کا اعلان بھی اْسی وقت کرتا جب یو پی کے چناؤ کا عمل مکمل ہو جاتا،کیونکہ ذرائع ابلاغ کے اس دورِ جدید میں خبروں کی ترسیل منٹوں نہیں بلکہ سیکنڈوں میں ہو رہی ہے اور ہندوستان کیا بلکہ دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے میں کسی خبر کو پہنچنے میں دیر نہیں لگتی۔ ہر خبر کسی کیلئے مثبت تو کسی کیلئے منفی اثر رکھتی ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ الیکشن کمیشن اس پہلو پر آزادانہ غور کرتا، کیونکہ اب میونسپل اور لوک سبھا تک کے الیکشن ایک جیسے ہو گئے ہیں۔
الیکشن کمیشن کو یہ معلوم ہے کہ اس سال بجٹ کی تجویز پہلی بارایک ماہ پہلے رکھی گئی جو کہ منصوبہ بند تھی کیونکہ بی جے پی اور آر ایس ایس کے تھنک ٹینک یہ جانتے تھے کہ۵؍ صوبوں میں انتخابات ہونے والے ہیں اور بجٹ میں لْبھانے والی مراعات دے کر ووٹروں کا دل جیتا جا سکتا ہے۔ یہ تو اچھاہوا کہ الیکشن کمیشن نے سختی برتی اور مودی حکومت کو کسی قسم کی مراعات کے اعلان سے باز رکھا۔ یہی سبب ہے کہ اس سال کا بجٹ پھیکا پھیکا رہا، ورنہ مودی حکومت کا جو ارادہ تھا وہ کم خطرناک نہیں تھا۔ نوٹ بندی بھی اسی وجہ سے کی گئی تھی تاکہ دوسری پارٹیوں کے پاس سے نقدی کا صفایا ہو جائے کیونکہ وزیراعظم کے ذریعے اعلان کردہ نوٹ بندی کے تمام اسباب فیل ہو چکے ہیں۔ اب ہم آتے ہیں سیکولر پارٹیوں کے زوال کی طرف۔ ممبئی کا میونسپل الیکشن ویسے تو شیوسینا کیلئے وقار کا مسئلہ بنا ہواتھا لیکن کانگریس اور شرد پوار کی پارٹی این سی پی نیز ابو عاصم اعظمی کی پارٹی (ملائم سنگھ یا اکھلیش یادو کی نہیں) ایک عظیم اتحاد کر کے شیو سینا اور بی جے پی کو سخت مقابلہ آرائی پر مجبور کر سکتے تھے۔ یہ نہایت ہی حسین موقع تھا کیونکہ کئی دہوں بعد دونوں زعفرانی پارٹیاں پہلی بار الگ الگ چناوی میدان میں اتری تھیں، لیکن موقع سے فائدہ اٹھانا راہل گاندھی تو جیسے جانتے ہی نہیں۔ انہوں نے سنجے نروپم پر تمام تراعتبار کیا جبکہ انہیں پتہ ہونا چاہئے کہ سنجے نروپم سابق زعفرانی ہیں۔ سنجے نروپم نے کانگریس کو اچھی پوزیشن میں مقابلے میں رہنے کیلئے اچھی کوشش کی ہی نہیں بلکہ کانگریس میں پھوٹ ڈالنے اور اسے کمزور کرنے میں اہم کردار اداکیا۔ اقلیتوں کے ساتھ برا سلوک بھی رہا۔ کم از کم نظام الدین راعین نے نروپم پر یہی الزام عائد کرتے ہوئے پارٹی چھوڑ دی کہ ان کے نزدیک اقلیتوں (مسلمان پڑھئے) کی کوئی عزت و وقعت نہیں۔ داڑھی ٹوپی والوں سے نہ صرف وہ دور رہنا چاہتے ہیں بلکہ مسلمانوں کو ٹکٹ دینا بھی مناسب نہیں سمجھتے…اور راہل گاندھی کو تو سیدھے وزیر اعظم بننا ہے۔ میونسپل الیکشن کو وہ خاطرمیں کیا لائیں گے۔ ابو عاصم اعظمی کی اپنی 'ایک فکر ہے۔ ممبئی اور مہاراشٹر میں وہ اکلوتے سماجوادی (پارٹی کے لیڈر) ہیں۔ ان کے یہاں تو تھنک ٹینک کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا۔ چونکہ وہ خود سوچتے ہیں اور اچھا سوچتے ہیں۔ ان کی پارٹی یو پی میں اگر کانگریس سے اتحاد کر سکتی ہے تو ممبئی میں کیوں پرہیز ہے؟ یہ وہ کبھی نہیں سمجھا سکتے اور نہ ہی انہیں کوئی مجبور کر سکتا ہے۔
اب آئیے شرد پوار کی طرف۔۲۰۱۴ئمیں ہونیوالے مہاراشٹر اسمبلی الیکشن میں، کانگریس کے ساتھ اتحاد کریں یا نہ کریں…اْس بات پر چھوڑ دیا تھا کہ اگر بی جے پی شیو سینا سے اتحاد نہیں کرتی ہے تو ہم بھی نہیں کریں گے اور اگر اتحاد کرتی ہے تو ہم بھی اتحاد کر لیں گے۔ جب بی جے پی نے اعلان کر دیا کہ وہ اکیلے چناؤ لڑے گی، تو این سی پی سپریمو نے بھی اعلان کر دیا کہ ہم بھی اکیلے ہی انتخابی میدان میں اتریں گے یعنی کانگریس کے ساتھ اتحاد نہیں کریں گے۔ یہ کتنا احمقانہ فیصلہ تھا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ قسمت سے ایک اچھا موقع ملا تھا کہ دہوں بعد دونوں زعفرانی پارٹیاں الگ الگ چناؤ لڑ رہی تھیں۔ اگر شرد پوار اور کانگریس کا اتحاد انتخابی میدان میں اترتا تو آج صوبائی سیاست کا نقشہ کچھ اور ہوتا….اور تو اور بہت کم لوگوں نے اس واقعہ کو دھیان میں رکھا ہے کہ۲۰۱۴ء کے اسمبلی الیکشن سے صرف۱۵؍روز پہلے این سی پی نے کانگریس کی حکومت سے اپنا اتحاد توڑ لیا تھا، چنانچہ صدر راج کے تحت۲۰۱۴ء کے صوبائی انتخابات ہوئے تھے۔ اس کی خاص وجہ یہ تھی کہ کانگریس کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچایاجائے جبکہ این سی پی کانگریس کے ساتھ۱۵؍برس یعنی۳؍میعاد تک حکومت میں شامل رہی۔ اسے یہ معلوم تھا کہ حکومت مخالف لہر چل رہی ہے اور اس سے چند ماہ ہی قبل۲۰۱۴ء کے لوک سبھا کے انتخابات میں دونوں نے اپنا حشر تو اچھی طرح دیکھ ہی لیا تھا! پھر بھی اگر برباد ہونے پر ہی تلے ہوں تو کون بچا سکتا ہے؟ دونوں پارٹیاں اقتدار میں ہونے کا مطلب اچھی طرح جانتی ہیں۔ اقتدار میں رہنے کیلئے اور اقتدار حاصل کرنے کیلئے بی جے پی جس قدر محنت کر رہی ہے اس کا عشر عشیر بھی یہ نام نہاد سیکولر پارٹیاں نہیں کر تیں۔ اسی لئے جو محنت کرے گا پھل بھی وہی کھائے گا۔اگرچہ ۸۴؍سیٹیں حاصل کر کے ممبئی میونسپل کارپوریشن میں شیو سینا سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری ہے لیکن بی جے پی بھی۸۲؍سیٹیں لے کر بہت پیچھے نہیں ہے۔اِس بار شیو سینا کی ناک تو بچ گئی ہے لیکن اگر وہ بی جے پی کے ساتھ مل کر کارپوریشن پر حکومت کرتی ہے تو آنے والے۲۰۲۲ء کے الیکشن میں اپنی ناک کٹوانے سے نہیں بچا سکتی۔ اسے متبادلات پر غور کرنا ہوگا۔کھیر توٹیڑھی ضرور ہے لیکن بنانا پڑے گی۔ اب یہ ادھو ٹھاکرے کی صوابدید پر ہے کہ کانگریس کو باہر سے حمایت دینے کیلئے تیار کر لیں کیونکہ۲۲۷؍ سیٹوں والے ممبئی کارپوریشن میں کانگریس کی۳۱؍ سیٹوں کی حیثیت کِنگ میکر کی ہے۔ اس سے ایک نئی صف بندی وجود میں آئے گی۔ کانگریس کی سیکولر شبیہ تو متاثر ہوگی لیکن شیو سیناکی زعفرانی صفت پر بھی توآنچ آئے گا۔ اب تو۲۹؍مسلم کارپوریٹروں میں شیو سینا کے۲؍مسلم کارپوریٹر بھی چن کر آئے ہیں جبکہ بی جے پی کا کوئی مسلمان کارپوریٹر نہیں ہے ۔شو سینا کا ممبئی میونسپل کارپوریشن میں بی جے پی کے ساتھ جانے پر سب کچھ جوں کا توں رہے گا۔ شیو سینا کو اپنی حقیقت معلوم ہے لیکن وہ کسی بھی قیمت پر مہارشٹر میں نمبر وَن پارٹی کی حیثیت سے بنی رہنا چاہتی ہے لیکن مہا راشٹر بھر کے مقامی انتخابات کے نتائج نے اس کے ہوش اڑا دیئے ہیں۔ کانگریس تو کوما میں چلی گئی ہے اور این سی پی، آئی آئی سی یومیں داخل ہو گئی ہے۔تقریباً تمام جگہوں پر بی جے پی نے اچھی جیت درج کی ہے۔ یہ نہ صرف سیکولر جماعتوں بلکہ شیوسینا کیلئے بھی لمحۂ فکریہ ہے۔
……………………………….
نوٹ :مضمون نگار ماہنامہ تحریر نو ،نئی ممبئی کے مدیر ہیں) (رابطہ:9833999883)