امن و قانون کی صورتحال سے دوچار ریاست جموں و کشمیر میںمگرکوٹ بانہال جیسے واقعات نہ صر ف ایک سنگین خطرہ ہیںبلکہ انتظامیہ کے لئے ایک انتباہ بھی ! ۔ایسے واقعات دراصل سماجی تفریق اور فرقہ وارانہ بھائی چارے کو زک پہنچانے کا مؤجب بن سکتے ہیں جو ریاست میں امن عامہ کیلئے پریشانی کی بات ہے ۔ماضی میں اسی نوعیت کے درجنوں واقعات رونما ہوچکے ہیں جن پر پولیس کی طرف سے مناسب کارروائی نہ کئے جانے کا نتیجہ ہے، چنانچہ آج گھریلو ضرورت کے لئے بھی مویشی خرید کر لیجانا ہر ایک کیلئے وبال جان بن رہاہے اور مویشی لیجانے والوں کو راستے میں مار پیٹ کاسامناکرناپڑتاہے ۔اگرچہ پولیس نے اس واقعہ میں ملوث تین افراد کو گرفتار کرکے ان کے خلاف باضابطہ ایف آئی آر بھی درج کیاہے تاہم اطلاعات کے مطابق مقامی معززیں کے تعاون سے ایک ایسی فضاء پیدا کی گئی ہے،جس میں دونوں فریقین نے معافی تلافی سے کام لے کرراضی نامے پر دستخط کئے ہیں۔ مقامی لوگوں کے مطابق ایسا اس لئے کیا گیا ہے تاکہ انتہا پسندنظریات رکھنے والے عناصر پر یہ واضح کیا جائے کہ سماج میں کئی ایسے طبقے بھی موجود ہیں جو انکے عزائم کو کامیاب نہیں ہونے دینگے۔ بہر حال یہ ایک اچھی شروعات ہے اور امید کی جاسکتی ہے کہ یہ پیغام ساری ریاست میں پہنچ جائے گا۔ البتہ حکومت کےلئے یہ بھی ضروری ہے کہ جب تک ٹھوس اقدامات نہیں کئے جائیں گے او ر سبق آموز سزائوں کا تعین نہیں ہوگاتب تک ملکی سطح پر الور راجستھان اور ریاستی سطح پرمگرکوٹ جیسے واقعات کا تسلسل جاری رہنے کا اندیشہ ہے ۔بدقسمتی سے ملک بھر میں گائو رکھشک کے نام پر ایک ایسی بے لگام فورس تشکیل پاچکی ہے جس کے لئے نہ ہی قانون کوئی اہمیت رکھتاہے اور نہ ہی اسے فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور امن عامہ کے بگڑنے کی فکر ہے۔یہ ایک ایسی فورس ہے جس کو دائیں بازو کے انتہا پسند عناصر کی جانب سے نہ صرف اچھی خاصی حمایت مل رہی ہے بلکہ مختلف تاویلات پیش کرکے انکا دفاع کرنے سے بھی احتراز نہیں کیا جاتااور یہی وجہ ہے کہ آج تک گائو رکھشکوں کے ہاتھوں قتل کئے گئے کسی ایک بھی بے گناہ شخص کے لواحقین کو انصاف نہیں ملا ۔یہ ایک پریشان کن صورتحال ہے جس کو دیکھتے ہوئے کانگریس کے ایک سینئرلیڈر کو یہاں تک کہناپڑاہے کہ ایسا لگتاہے کہ کئی جگہوں پر ایک مسلمان ہونے سے گائے ہونا زیادہ محفوظ ہے ۔ایسے واقعات کے تنا ظر میں ملکی سطح پر امن پسند لوگوں کی طرف سے یہ رائے قائم ہونے لگی ہے کہ ہجوم کے ہاتھوں عام اور بے گناہ افراد کے قتل پر سزا کا تعین کیاجائے اور اس سلسلے میں پارلیمان میں قانون وضع کیاجاناچاہئے ۔امید کی جانی چاہئے کہ موجودہ ضرورت کو دیکھتے ہوئے ایسا کوئی قانون وضع کیاجائے گا تاکہ کسی کو عقیدے کی بناپرتشدد کا شکار نہ بنایا جاسکےلیکن ریاست میں ایسے واقعات کاوقوع پذیر ہونا انتہائی تشویشناک ہے، جس سے یہاں کے صدیوں پرانے بھائی چارے کو نقصان پہنچ سکتاہے اور امن عامہ کی صورتحال بھی متذلذل ہوسکتی ہے ۔حالانکہ پولیس اس واقعہ کو فرقہ وارانہ قرار دینے سے انکار کررہی ہے اوراس نے اپنے بیان میں یہ بتایاہے کہ دودھ دینے والی بھینس لیجارہے معمر شخص کی راستے میں ایک شخص سے تلخ کلامی ہوئی جس کے بعد کنبے کے دیگر افراد بھی اس پر حملہ آور ہوئے لیکن یہ بھی کہاجارہاہے کہ معمر شخص کی پٹائی یہ الزام دے کر کی گئی کہ وہ بھینس کو ذبح کرنے لیجارہاہے جبکہ حقیقت یہ نکلی کہ اس نے بھینس گھریلو ضرورت کیلئے خریدی تھی ۔معاملہ چاہے جو بھی ہو لیکن اس بات سے انکار نہیں کیاجاسکتاکہ مویشیوں کی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی کا عمل خطرے سے خالی نہیں ہے چاہے کیوں نہ یہ مویشی گھریلوضرورت کے ہوں یاپھر انہیں ڈھوک لیجایاجارہاہو۔کیونکہ ماضی میں بھی مویشی سمگلنگ کے نام پر غنڈہ عناصر کی طر ف سے مار پیٹ کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔مگرکوٹ واقعہ پر دونوں فرقوںکے باشعور اور سنجید ہ فکر افراد نے امن و بھائی چارے کی صورتحال کوبرقرار رکھنے کیلئے پہل کرکےایک شروعات کی ہے جس کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہئے تاکہ اُن عناصر کو سبق ملے،جو امن عامہ خراب کرنے کیلئے ہمیشہ تاک میں رہتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پولیس ایسے واقعات پر کڑی کارروائی کرے اور ان میں ملوث افراد کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیاجائے نہیں تو کبھی مویشی لیجارہے کسی معمر شخص کی پٹائی ہوگی توکبھی مویشیوں سے لدی کوئی گاڑی نذر آتش ہوگی یا پھرڈھوک جارہے کسی غریب خانہ بدوش کنبے کی مار پیٹ کی جائے گی ۔ آخر کب تک انتظامیہ ایسے واقعات کو معمول قرار دیکر اپنا دامن بچاتی رہے گی۔