پریتی گپتا
بھارت کی ریاست بہار کے رہائشی پھول دیو شاہنی بھی اپنے آباؤ اجداد کی طرح روزی روٹی کمانے کے لیے کیچڑ سے بھرے تالابوں میں غوطے لگایا کرتے تھے۔شاہنی بتاتے ہیں ،’میں روزانہ کی بنیاد پر گھنٹوں سات سے آٹھ فٹ پانی میں غوطہ لگاتا تھا اور اس دوران آٹھ سے دس منٹ کے وقفے سے سانس لینے کے لیے سطح پر آتا تھا‘۔وہ ان کیچڑ سے بھرے تالابوں کے گہرائیوں سے ایک قسم کے کنول کے بیج نکالا کرتے تھے جسے مقامی زبان میں مکھانے کہا جاتا ہے۔بی وٹامنز، پروٹین اور فائبر سے بھرپور ان مکھانوں کو کئی لوگ ان کی غذائی افادیت کی وجہ سے سوپر فوڈ قرار دیتے ہیں۔
مکھانوں کو اکثر ناشتے میں کھایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اسے کھیر سمیت مختلف پکوانوں میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ کچھ لوگ اسے پیس کر آٹے میں بھی شامل کرتے ہیں۔دنیا بھر میں پیدا ہونے والے مکھانوں کا 90 فیصد بہار میں اُگایا جاتا ہے۔کنول کے پتے بڑے اور تالاب کی سطح پر تیر رہے ہوتے ہیں تاہم اس کے بیج تالاب کی تہہ میں پائے جاتے ہیں جس کی وجہ سے ان کو نکالنا ایک محنت طلب اور مشکل کام ہے۔
شاہنی بتاتے ہیں کہ جب وہ مکھانے جمع کرنے کے لیے تالاب کی تہہ میں ڈبکی لگاتے ہیں تو ان کی آنکھ، ناک، کان اور منہ میں کیچڑ چلا جاتا ہے،ہم میں سے کئی لوگوں کو جلد کے امراض بھی لاحق ہو گئے ہیں۔ اس کے علاوہ کیوں کہ کنول کا پودا کانٹوں سے بھرا ہوتا ہے اس لیے بیج جمع کرتے ہوئے ہمارے پورے جسم پر زخم آ جاتے ہیں۔مگر اب مکھانوں کی کاشت کا طریقہ کار بدل رہا ہے۔کنول کے پودے اب تالابوں کی جگہ کھیتوں میں کم گہرے پانیوں میں لگائے جا رہے ہیں۔صرف ایک فٹ گہرے پانی میں بیج کی کٹائی کا مطلب ہے کہ اب شاہنی کی روزانہ کی کمائی دوگنا ہو سکتی ہے۔بقول اس کے، یہ کام اب بھی آسان نہیں لیکن انھیں اپنی روایت پر فخر ہے۔
ڈاکٹر منوج کمار نیشنل ریسرچ سینٹر فار مکھانہ (این آر سی ایم) کے سینیئر سائنسدان ہیں اور ان کا شمار ان افراد میں ہوتا ہے جنھیں مکھانوں کی کاشت کے طریقہ کار میں تبدیلی کا سہرا جاتا ہے۔آج سے تقریباً 10 سال قبل انھوں نے محسوس کیا کہ گہرے تالابوں میں مکھانوں کی کاشت کو بڑھانا مشکل ہو گا۔مختلف تجربات کے بعد ڈاکٹر کمار کے سینٹر نے مکھانے کی بیج کی ایک ایسی قسم تیار کر لی ہے جو کھیتوں میں بھی باآسانی اُگائی جا سکتی ہے اور جس کی صلاحیت بھی زیادہ ہے۔ ان کا دعویٰ ہے اس بیج کے باعث کاشتکاروں کی آمدن میں تین گنا تک اضافہ ہوا ہے۔ہماری ایجاد کے بعد مکھانے اگانا اتنا ہی آسان ہے جتنا زمین پر اگائی جانے والی کوئی دوسرے فصل۔ اس کو اگانے کے لیے صرف ایک فٹ پانی کی ضرورت ہوتی ہے جس کی وجہ سے اب کاشتکاروں کو گھنٹوں گہرے پانی میں کام کرنے کی ضرورت نہیں رہی۔ڈاکٹر کمار کا کہنا ہے کہ مکھانوں کی کاشت کے اس نئے طریقے نے کسانوں کو غیر یقینی موسمی صورتحال اور حالیہ برسوں میں بہار میں آنے والے سیلابوں سے نمٹنے میں مدد دی ہے۔ان کا سینٹر اب ایسی مشینوں پر کام کر رہا ہے جن کے ذریعے بیجوں کی کٹائی کی جا سکے۔مکھانوں کی کاشت میں آنے والی ان تمام جدتوں کے بعد اب پہلے سے زیادہ کسان اس کی کھیتی کی جان راغب ہو رہے ہیں۔
پچھلے دس سالوں میں مکھانوں کی کاشت میں استعمال ہونے والا تقریباً تین گنا ہو کر سنہ 2022 میں 35,224 ہیکٹر (87000 ایکڑ) تک پہنچ چکا ہے۔دھیریندر کمار کا شمار ان کسانوں میں ہوتا ہے جنھوں نے حال ہی میں مکھانوں کی کاشت شروع کی ہے۔ان کی تمام زندگی فارم پر گزری تاہم اس کے باوجود وہ اپنے والد کے نقش قدم پر چل کر کھیتی باڑی نہیں کرنا چاہتے تھے۔انھوں نے بتایا کہ بطور کسان ہم نے ہمیشہ گندم، دال اور سرسوں کی کاشت کی لیکن اس میں اکثر ہمیں نقصان ہوتا۔ بیشتر اوقات سیلاب سے فصلیں تباہ ہو جاتیں۔اپنی پی ایچ ڈی کی پڑھائی کے دوران کمار کی ملاقات ایک ایسے سائنسدان سے ہوئی جو مکھانوں کی کاشت پر تحقیق کر رہے تھے۔ اس کے بعد انھوں نے اپنے کھیتوں میں مکھانوں کی فصل لگانے کا فیصلہ کیا۔اس کے نتائج انتہائی حیران کن تھے۔ پہلے ہی سال ہمیں 432 ڈالرز کا منافع ہوا،اب وہ تقریباً 17 ایکڑ کے رقبے پر مکھانے کاشت کر رہے ہیں۔کمار کہتے ہیں کہ وہ خواب میں بھی نہیں سوچ سکتے تھے کہ وہ مکھانے کی کاشت جیسا محنت طلب کام کریں گے۔مکھانوں کی کاشتکاری میں جدت کے ساتھ خواتین کے لیے روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوئے ہیں۔کمار کے کھیتوں پر لگ بھگ 200 مقامی خواتین بیج بونے کا کام کرتی ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ میرا مقصد زیادہ سے زیادہ کسانوں کو روزگار فراہم کرنا ہے تاکہ وہ زراعت کے شعبے میں پیدا ہونے والی غیر یقینی صورتحال کے باعث کاشتکاری نہ چھوڑیں۔روایتی طور پر مکھانوں کی کٹائی کے بعد انھیں دھو کر بھونا جاتا ہے جس کے بعد ان کو ایک ہتھوڑی نما اوزار سے توڑ کر ان کا چھلکا اتارا جاتا ہے۔شمبھو پرساد مدھوبنی مکھانہ نامی کمپنی کے بانی اور چیف ایگزیکٹو ہیں۔ ان کی کمپنی دنیا بھر میں مکھانے برآمد کرتی ہے۔ان کا کہنا ہے یہ کام محنت طلب ہونے کے ساتھ ساتھ اس میں چوٹ لگنے کا بھی ہمیشہ خطرہ رہتا تھا۔این آر سی ایم کے اشتراک سے ان کی کمپنی نے ایک ایسی مشین تیار کی ہے جو مکھانوں کو بھون کر ان کے چھلکے الگ کر دیتی ہے۔پرساد کہتے ہیں۔اس کے نتیجے میں مکھانوں کی کوالٹی اور پیداوار بڑھانے میں مدد ملی ہے،اب تک بہار کے علاقے مدھوبنی میں واقع ان کے مینوفیکچرنگ پلانٹ میں ایسی تین مشینیں لگائی جا چکی ہیں۔مکھانوں کی کھیتی اور پروسیسنگ میں جدت کے باعث اس کی پیداوار میں اضافہ تو ہو رہا ہے تاہم اس کے باوجود پرساد نہیں سمجھتے کہ اس کی قیمت میں کمی آنے کا امکان ہے۔مکھانوں کی بڑھتی ہوئی عالمی مانگ کو دیکھتے ہوئے اس کی قیمت میں خاطر خواہ کمی لانے کے لیے پیداوار میں نمایاں اضافہ کرنا ہو گا۔