سہیل بشیر کار
(مکتوبات ِحضرت امیر کبیرؒ کو عالم دین ڈاکٹر غلام قادر لون نے ایڈٹ اور ترجمہ کیا ہے)
مکتوبات کی ہمیشہ اہمیت رہی ہے، اس صنف کو نصف ملاقات کہا گیا ہے ،یہ اظہار خیال کا اہم ذریعہ ہے مکتوبات میں مصنف وہ چیزیں بھی بیان کرتا ہے جو عام طور پر ملاقات میں بیان نہیں ہوسکتی، ملاقات میں جذبات بھی ہوتے ہیں اور احساسات بھی، مکتوبات کی تاریخ طویل ہے۔ قرآن کریم میں حضرت سلیمانؑ کا خط ملکہ سبا بلقیس کے نام کا ذکر ملتا ہے، انجیل کے آخر میں پولس، یعقوب، پطرس ،یوحنا اور یہودہ کے خطوط درج ہیں، نبی کریمؐ نے مختلف حکمرانوں کو خطوط لکھے ،دور خلافت میں بھی کافی خطوط لکھے جاتے تھے۔ادبا صوفیا کرام کے خطوط بھی مشہور ہیں۔ڈاکٹر غلام قادر لون لکھتے ہیں: ’’سیرت نبویؐ میں مکتوب نگاری کی بہترین مثالیں موجود ہیں۔ رسول اللہؐ نے مختلف حکمرانوں کے نام 7 ھ میں جو دعوتی خطوط ارسال فرمائے، وہ آج بھی سیرت اور تاریخ کی کتابوں کی زینت بنے ہوئے ہیں۔ خلافت راشدہ کے دوران خطوط ارسال کرنے کی روایت زیادہ عام ہوئی ۔ خلیفہ اول حضرت ابو بکرؓکے خطوط عہد صدیقی کے مورخین کے لیے مستند ماخذ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان خطوط کو کتابی صورت میں شائع کیا گیا ہے۔ حضرت عمر فاروقؓ خلیفہ دوم کے خطوط بھی جمع کئے گئے ہیں اور مورخین کے لیے اہم ماخذ کا کام دیتے ہیں۔ حضرت عمر ؓ کے اس مکتوب کو عدالتی نظام کا سرنامہ مانا جاتا ہے جو انھوں نے حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ کولکھا تھا۔ یہ مکتوب قاضی کے لیے مشعل راہ کا درجہ رکھتا ہے۔ حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ کے مکتوبات بھی ان کے سوانح نگاروں نے نقل کئے ہیں۔ حضرت علیؓ کے خطوط کا مجموعہ شائع بھی ہو چکا ہے۔‘‘ (صفحہ 6)
دورِ حاضر میں بھی مشاہرین کے خطوط لکھےگئے ہیں،بہت سے عظیم رہنماؤں کے خطوط کو کتابی شکل بھی دی گئی ہے۔اگرچہ ہر طرح کے مکتوبات کی اہمیت ہے لیکن جب خطوط لکھنے والا عظیم انسان ہو تو ان خطوط کی اہمیت بڑھ جاتی ہے، مکتوبات کا ایک اہم گلدستہ ’’مکتوبات امام ربانی‘‘ کے نام سے مشہور ہے، ضرورت اس بات کی تھی کہ حضرت امیر کبیرؒ کے مکتوبات کو ایڈٹ کیا جائے اور ان کا عام فہم ترجمہ کیا جائے، ڈاکٹر صاحب نے یہ کارنامہ انجام دیا ہے۔مکتوبات کے بارے میں ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں: ’’مکتوبات کا ایک اہم گلدستہ ’’ مکتوبات امام ربانی‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ جو بر صغیر میں ہی نہیں بلکہ پورے عالم اسلام میں علماء شریعت اور ارباب طریقت کے حلقوں میں مقبول ہے۔ مکتوبات امام ربانی کے تین دفتر در المعرفت نور الخلائق اور معرفت الحقایق‘‘ کے ناموں سے موسوم ہیں۔ ان مکتوبات کی تعداد ۵۳۶ ہے۔ یہ مکتوبات بادشاہ، امراء، علماء، مریدین اور معتقدین کے نام لکھے گئے ہیں۔ مکتوبات امام ربانی میں بدعات اور غیر اسلامی رسومات کا توڑ کیا گیا ہے۔ صوفیہ کے بعض نظریات پر نقد کیا گیا ہے اور وحدۃ الوجود کے نظریہ کی پُر زور مخالفت کی گئی ہے۔ مکتوبات امام ربانی نے ان غیر اسلامی افکار کا قلع قمع کرنے میں اہم رول ادا کیا ہے جو مخصوص سیاسی ، سماجی اور دینی ماحول میں فروغ پا رہے تھے، جن کے نتیجے میں علمی اور مذہبی حلقوں میں بھی رام ورحیم کو ایک سمجھنے کی غلط فہمی عام ہوگئی تھی ۔ گمراہ صوفیہ چوں کہ اپنے غلط خیالات کی ترویج کے لیے شیخ محی الدین ابن عربی کی کتابوں کا نام لے رہے تھے، اس لئے حضرت مجدد نے یہ کہہ کر ان خیالات کی اصل پر تیشہ چلایا : ہماری رہنمائی سچی عبارت سے ہوتی ہے، باطل سے نہیں اور مدینہ کی فتوحات نے ہمیں فتح مکہ سے آزاد کر دیا ہے۔ بنایا ہمیں نصوص ( نص شرعی ) کی ضرورت ہے نہ کہ فصوص ( شیخ محی الدین ابن عربی کی مشہور کتاب فصوص الحکم ) کی، فتوحات مدنیہ (یعنی احادیث رسول اکرمؐ نے ہمیں فتوحات مکیہ ( شیخ ابن عربی کی دوسری مشہور کتاب الفتوحات المکہ ) سے بے نیاز کر دیا ہے۔‘‘ (صفحہ 8)
چونکہ ان مکاتیب کو ایڈٹ کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب کو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ،کیونکہ متن میں کافی غلطیاں تھی، ڈاکٹر صاحب نے اس متن کو درست کر دیا، لکھتے ہیں: ’’مطبوعه صورت میں جو متن موجود ہے ،وہ بہت سے مقامات پر گنجلک ہے۔ بعض مقامات پر متن واضح نہیں ہے۔ کہیں کہیں عبارت ادھر سے اُدھر ہوگئی ہے بعض جگہ اقوال وامثال میں تغیر ہو گیا ہے۔ متن کی یہ خامیاں اردو ترجمے میں بھی در آئی ہیں۔ مطبوعہ نسخوں کے ساتھ ساتھ جو مخطوطات زیر نظر رہے ہیں، ان میں بھی غلطیاں ہیں۔ مطبوعہ اور مخطوط نسخوں اور اردو تر جموں کو ملا کر متن کی صحیح کرنے کی حتی المقدور کوشش کی گئی۔ اس امر کا خاص خیال رکھا گیا کہ متن میں کہیں ایسی عبارت یا ایسے الفاظ نہ آئیں جو مطبوعہ یا مخطوط نسخوں میں موجود نہ ہوں ۔‘‘ (صفحہ 12)
مکتوبات کے نام سے حضرت امیرؒ کے نام کافی خطوط منسوب ہے جو کہ اصل میں کسی اور کے خطوط ہیں۔ڈاکٹر صاحب کی کوشش رہی ہے کہ صرف ان خطوط کو مجموعہ میں شامل کیا جائے جو کہ واقعی امیر کبیر کے ہے۔زیر تبصرہ کتاب میں حضرت امیر کبیر کے 33 خطوط کو شامل کیا گیا ہے۔کتاب کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلے حصے میں 21 خطوط اور دوسرے حصے میں12 خطوط شامل کیے گئے ہیں۔
یہ خطوط اسلامی ادب میں ایک اہم سرمایہ ہے، ان خطوط سے حضرت امیر کی شخصیت نمایاں ہو جاتی ہے۔یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت امیر کی شخصیت ہمہ گیر تھی ۔آپ کے ہاں جہاں روحانیت پائی جاتی ہے وہیں حکمرانوں کو نصیحت بھی ملتی ہے۔یہ خطوط مصائب میں گھرے ہوئے لوگوں کو بھی راحت کا سامان پیش کرتے ہیں، ان خطوط سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ لوگوں کو ہر فیلڈ میں اسلام کی رہنمائی دینا پسند کرتے تھے۔ان خطوط میں باطل تصوف کی تردید بھی ملتی ہے، ان خطوط میں علمی نکات کو بیان کیا گیا ہے بقول ڈاکٹر صاحب کے ان خطوط میں اہل علم اور ارباب نظر دونوں کے لیے دل و نگاہ کا سامان وافر مقدار میں موجود ہے۔ان خطوط میں حضرت میر سید علی ہمدانیؒ جہاں حکمرانوں کو پند و نصائع کرتے ہیں وہیں انہیں ظلم و جبر اور خیانت سے باز رہنے کی تلقین کی گئی ہے۔آپ بلند پایہ صوفی تھے لیکن تصوف کے نام پر جو بدعات معاشرہ میں عام تھے۔ان خطوط میں ان بدعات اور نقلی صوفیا پر سخت گرفت بھی کی گئی ہے۔
امت مسلمہ کی اصلاح کے لئے سب سے اہم قرآن و سنت سے رہنمائی لینا ہے، حضرت اس بات سے واقف تھے، حضرت کے مکاتیب میں جگہ جگہ قرآن و حدیث کے حوالے ملتے ہیں۔آپ جگہ جگہ قرآن اور حدیث کی تشریح بھی اپنے خطوط میں کرتے ہیں۔ایک خط میں منافقین کی خصلت کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے سورہ البقرہ آیت 206 :
’’اور جب اس سے کہا جاتا ہے کہ خدا کا خوف کر لو تو غرور اسے گناہ میں پھنسا دیتا ہے، سو ایسے کو جہنم سزاوار ہے اور وہ برا ٹھکانہ ہے۔‘‘کے تحت لکھتے ہیں: ’’یعنی منافق کی علامت یہ ہے کہ وہ اپنی مسلمانی پر مغرور ہوتا ہے اور دوسروں کو ملامت کرتا ہے، نیز نصیحت نہیں سنتا۔ جب کوئی دینی معاملہ پیش آتا ہے جس کے سامنے فرمانبرداری، تواضع و تسلیم کے ساتھ اطاعت اختیار کرنا تھی اور حضرت صمدیت (خدائے بے نیاز ) کی رضا کے دولت خانہ کے دروازے کو عجز و نیاز کی کنجی سے کھولنا چاہئے تھا۔اس وقت اس کے تکبر کا فرعون اس کی کم ہمتی کا گریباں پکڑتا ہے اور غضب کا کتا حملہ آور ہوتا ہے اور اس سے وہ بدنصیب کو اسلام کی دولت سے محروم کرتا ہے۔‘‘ (صفحہ 117) جگہ جگہ احادیث کی بھی بہترین تشریح کرتے ہیں، حدیث’’ دین خیر خواہی کا نام ہے ‘‘کے تحت لکھتے ہیں: ’’ لہٰذا اس حدیث کے حکم کے مطابق حاکم پر پہلے واجب ہے کہ اللہ کے بندوں کو پروردگار کی اطاعت کی راہ دکھائے اور دین سے گمراہ کرنے والوں کی جوابی فسق و فجور اور اہلِ بدعت و گمراہی میں سے ہوتے ہیں، سرکوبی کرے اور ظالموں کی زیادتی کا ہاتھ مظلوموں پر سے روکے اور شریعت کی تقویت اور سنت احمدی کے احیاء میں، جو دولت ابدی کے بقا کا سبب اور دائمی سعادت کے حصول کا واسطہ ہے، پوری کوشش کرے تا کہ اس کا نام شاکرین کے دیوان میں لکھا جائے اور اس کی حکومت کا درخت ابدی سعادتوں کا ثمر لائے اور اہل اللہ اور ارباب قلوب کے دل اس کے ساتھ محبت پر مائل ہوں اور خاص و عام میں تمام مومنوں کی زبان پر صبح و شام اس کے لئے دعا جاری رہے اور دنیا کے لوگوں میں نیک نامی سے موصوف و معروف ہو۔‘‘(صفحہ 210)
ان خطوط میں جہاں حقوق اللہ کی تلقین کی گئی ہے؛ وہیں حقوق العباد کی بھی تلقین ملتی ہے۔ ایک خط میں لکھتے ہیں:’’پہلی قسم حقوق اللہ، مثلاً نماز، روزہ، تلاوت قرآن مجید اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اور ان جیسی مثالوں کی بدنی عبادت ہے۔
دوسری قسم عبادات مالی ہے،جو مخلوق سے تعلق رکھتی ہیں ۔ مثلاً زکوٰۃ ، صدقہ ، پلوں اور سرائیوں کی تعمیر ، ضعیفوں ، مسکینوں اور یتیموں کی مدد، پریشان حال لوگوں اورمظلوموں کی اعانت اور اس طرح کے دوسرے کام ۔‘‘(صفحہ 95) ۔امیر کبیر کے ہاں حلال و حرام کی کافی اہمیت تھی ۔ایک مکتوب میں لکھتے ہیں: ’’اے عزیز! حرام نہ کھاؤ اور حرام ( کام ) مت کرو۔ کمزوروں کو محروم مت کرو کہ حقیقت میں خود کو محروم کروگے۔ یقین جانو کہ ہر مراد کے بعد نامرادی ہوگی ، ہر فراخی کے بعد تنگی اور ہر آسائش کے بعد تکلیف ہے اس لیے نعمت ( دولت ) جتنی زیادہ ہو، اسراف نہ کرو اور بقدر حاجت خرچ کرو۔ نعمت اور آسائش میں مصیبت زدوں کی حالت کے بارے میں فکر کرو۔ خوشحالی میں محتاجوں کو یاد رکھو اور ان کی مدد کرو اس کا ثمرہ اور بدلہ ضرور پاؤ گے۔‘‘ (صفحہ 103)
ڈاکٹر غلام قادر لون صاحب نے نہایت ہی عمدہ اور بہترین طریقے سے ان خطوط کو ایڈٹ کیا ہے۔ہر مکتوب سے پہلے مختصر تعارف بھی پیش کیا گیا ہے۔پہلے حصے کے دوسرے مکتوب میں ڈاکٹر صاحب ایسے تعارف پیش کرتے ہیں: ’’یہ مکتوب حضرت امیر کبیر نے پکھلی سے سلطان قطب الدین شاہمیری کو ارسال کیا ہے، جو ۷۸۰ ھ سے ۷۹۶ ھ تک کشمیر کے حکمران رہے ہیں اور حضرت کے ارادت مندوں میں تھے، سلطان قطب الدین ہی کی درخواست پر حضرت امیر نے رسالہ عقبات یا قدوسیہ تحریر کیا ہے۔ سلطان قطب الدین کے نام زیر نظر مکتوب تمام قلمی نسخوں اور مطبوعہ مجموعوں میں موجود ہے اور ان میں مرسل الیہ کا نام سلطان قطب الدین دیا گیا ہے۔‘‘(مترجم) (صفحہ 106)
اس کتاب کو مرتب کرنے میں وادی کی معروف شخصیت محترم عبدالرحمن کوندو صاحب کی کاوشیں رہی ہے، جس کے لیے وہ قارئین کی طرف سے شکریہ کے مستحق ہیں۔زیر تبصرہ کتاب دارالکتاب نورنگر، ڈاکٹر علی جان روڑ زونی مر سرینگر نے شائع کی ہے۔یہ کتاب موبائل نمبر 9796100098 سے حاصل کی جاسکتی ہے۔کتاب کی قیمت 300 روپے بھی مناسب ہے۔
مبصر سے رابطہ۔ 9906653927