لاس ویگاس میں ایک ۶۴ ؍سالہ امریکی خاتون شہری اسٹیفن پیڈوک نے اردو اخبارات کے مطابق ۵۸ ؍ افراد اور ’’الجزیرہ ‘‘کے مطابق۵۹؍لوگوں کو گولیوں سے بھون ڈالا۔مزید ۵۱۲؍ لوگ زخمی ہوئے ہیںجن میں سے کئی ایک کی حالت انتہائی نازک ہے۔چونکہ قاتل عیسائی بھی ہے اور امریکی بھی، اس لئے اسے ’’دہشت گرد‘‘ نہیں کہا جا سکتا۔ باطل پسند دنیا کے بقول ’’دہشت گردی ‘‘تو صرف مسلمان کرتے ہیں۔ بہرحال جو بھی ا س میں ملوث ہو ہم اس واقعے کی شدید مذمت کرتے ہیں کیونکہ ہمارا دین کہتا ہے کہ اگر کسی شخص نے ایک انسان کو قتل کیا تواس نے گویا پوری انسانیت کو قتل کر دیا اور کسی شخص نے ایک انسان کو بچایا تو گویا اس نے پوری انسانیت کو بچایا۔ لاس ویگاس کا منڈالے بے ریسورٹ اینڈ کاسینو کا یہ علاقہ عموماً سیاحوں سے بھرا ہوتا ہے ۔حملے کے وقت ریسورٹ میں میوزک کنسرٹ چل رہا تھا جس میں شائقین کی تعداد ۲۲ ہزار تھی۔قاتل نے اس سے متصل ہوٹل کے ۳۲؍ ویں منزل سے سامعین پر اندھا دُھند گولیاں برسائیں اور بعد میں شاید خود کو بھی گولی مار لی۔ واقعہ کے بارے میں پولیس کہانی سے یہی ظاہر ہوتا ہے۔پولس کا کہنا ہے کہ جب وہ قاتل کے کمرے میں گھسی تو اسے مردہ پایا گیا۔پولیس ہی کہتی ہے کہ قاتلہامریکی اصطلاح میں Lone Wolf تھا یعنی اس کا کسی تنظیم یا تحریک سے کوئی تعلق نہیں تھامگر پھر بھی پولیس کو کسی مشتبہ خاتون کی تلاش ہے ۔ بہر حال سچ یہ ہے کہ جب سے امریکہ نے مسلم ممالک میں قتل غارت گری کا جنونی کھیل شروع کیا ہے قدرت نے (جسے مغرب مانتا نہیں)امریکہ میں بھی اس قسم کے واقعات عام کر دئے ہیں۔امریکہ چونکہ عالمی قاتلوں کے ٹولے کا سرخیل ہے، اس لئے سب سے زیادہ قتل و غارت گری وہیں ہو رہی ہے ۔امریکی تاریخ جاننے والا کوئی کہتا ہے کہ سفید فاموں نے امریکہ پر قبضے کے لئے ۱ یک کروڑ ریڈ انڈینس کا خون بہایا تھا ،کوئی دو کروڑ اور کوئی پانچ کروڑ کی تعداد بتاتا ہے ،جو بھی ہو اس سے امریکی خمیر کا پتہ چلتا ہے ۔ان جرائم کے ساتھ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ امریکی حکمران اپنی قوم کو امن پسند بناتے مگر ہوا یہ کہ بزدل کے ہاتھوں طاقت کی چھڑی فطری طور پر جوگل کھلاتی ہے وہی امریکی حکمران قریب ایک صدی سے کرتے آرہے ہیںاور اپنی قوم کو بھی انہوں نے جنگی جنون کا خوگر بنا دیا ہے ۔قدرت کا بھی ایک قانون ہے جسے مکافات عمل کہتے ہیں ، یعنی ادلے کا بدلہ ،اب مکافات عمل کا یہی قانون مختف رنگوں میں امریکیوں پر لاگو ہوراہے ۔گذشتہ مہینوں میں پے درپے کئی سمندری طوفانوں نے امریکہ میں جم کر تباہی مچائی ہے کیونکہ امریکہ اس دنیا میں ماحولیات کے بگاڑ کا سب سے بڑا ذمے دار ہے۔گرین ہاؤس گیسوں کی سب سے زیادہ پیدائش امریکہ میں ہوتی ہے اور اپنی طاقت کے بل بوتے پر ماحول کی اصلاح کی ذمہ داری سے بھاگتا بھی ہے اور گرین ہاؤس گیسوں کی پیداوار کو کم کرنے پر تیار بھی نہیں ہوتا۔ اس لئے اب شاید امریکہ کو سدھارنے کی ذمے داری قدرت نے خود لے لی ہے۔ذیل میں ہم کچھ اہم واقعات دے رہے ہیں جو گذشتہ ۲۰ برسوں کے دوران امریکہ میں پیش آئے ہیں اور جو مکافات عمل کا ثبوت ہیں:(۱)۱۲ جون ۲۰۱۶ میںپلس نائٹ کلب میں ۴۹ لوگ مارے گئے۔ قاتل ایک امریکی شہری عمر متین تھا۔(۲)سان برناڈینو کیلی فورنیا میں دسمبر ۲۰۱۵ میں ایک پاکستانی جوڑے رضوان فاروق اور اس کی بیوی تشفین ملک نے جو کہ امریکی شہری ہی تھے ،ایک شوشل سروس سینٹر کی آفس پارٹی مین ۲۴ لوگوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا اور ۲۲ لوگوں کو زخمی بھی کردیا۔(۳)ستمبر ۲۰۱۳ میں سابق فوجی آرون الکسس نے جو کہ امریکی شہری تھا نیوی یارڈ ہیڈکوارٹرس میں ۱۲ لوگوں کو مار دیا۔(۴) جولائی ۲۰۱۲ میں اورورا۔کولوراڈو میںجیمس ہومس نامی امریکی شہری نے ایک سنیما مین گھس کر فائرنگ بھی کی اورآنسو گیس بھی کھول دیاجس میں ۱۲ شہری جاں بحق ہوئے۔(۵)ایک ۲۰ سالہ امریکی شہری آدم لانزا نے دسمبر ۲۰۱۲ میں ۲۰ بچون اور ۶ بالغوں کو سینڈی ہک ایلمنٹری اسکول میں گولیوں سے بھون دیا جس مین قاتل کی ماں بھی شامل تھی۔اور اسے غصہ اپنی ماں پر ہی تھا۔(۶)ورجینیا ٹیکنیکل یونیورسٹی میں ایک ۲۳ سالہ ساؤتھ کورین امریکی طالب علم نے ۲۷ طلبہ اور ۵ اساتذہ کو فائرنگ میں مار ڈالا تھا(۷)نومبر ۲۰۰۹ میں امریکی فوجی سائکیاٹرسٹ ندال حسن نے امریکی فوجی بیس میں فائرنگ کرکے ۱۳ فوجیوں کو مار دیا تھا ۔ڈاکٹر ندال حسن فوجی بیس مین بہت مقبول تھا مگر تھا افغانی۔گورے فوجیوں نے اس کے سامنے اس کی قوم کے تعلق کچھ ایسی باتیں کیں جسے غیورقوم کا فرد برداشت نہ کرسکا ۔(۸)جیورلی انٹریسوونگ جو کہ ایک ویتنامی مہاجر تھا،نے بنگھمٹن میں اپریل ۲۰۰۹ء میں ۱۳ لوگوں کو مار کر خود کو بھی گولی مار لی تھی۔ہمیں یقین ہے کہ ان کے علاوہ کچھ چھوٹے واقعات بھی ہوتے ہوں گے جو میڈیا میں رپورٹ نہ ہوتے ہوں گے یا دبا دئے جاتے ہوں گے۔
رابطہ نمبر؛769737613