’’آج موسم بڑا خراب نظر آتا ہے ۔ہر طرف کالے بادل منڈلا رہے ہیں، چلو چل کو اندر بیٹھیں ‘‘،آنگن میں بیٹھی شاہدہ کی نانی نے شاہدہ کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا ،لیکن شاہدہ پر جیسے اس کی بات کا کوئی اثر ہی نہیں ہوا ۔وہ پھر بھی چُپ چاپ کھڑی اُن کالے بادلوں کو تکتی رہی ۔کچھ دیر بعد نانی پھر باہر آئی اور شاہدہ کو پھر ایک بار اندر چلنے کو کہا ،لیکن اس بار بھی شاہدہ چُپ چاپ ہی کھڑی رہی۔ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ اُسے کسی کی بھی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی ۔گُم سم مدہوش وہ کہیں اور ہی مگن تھی ۔یہ منظر دیکھ کر میں بہت حیران رہ گیا ۔من ہی من میں مایوس بھی ہوگیا لیکن اچانک امی کے بُلانے پر میں کھڑکی کے تھڑے نیچے اُتر کر اندر چلا گیا ۔اگلے دن میں اپنے کمرے کی صفائی کررہا تھا کہ اچانک میری نظر شاہدہ کے آنگن میں پڑی ۔حیران و پریشان کھڑی شاہدہ کو پھر میں نے آسمان پر نظریں جمائے پایا ۔اُس کے اس قدر آسمان کی اور دیکھنے کا کیا مطلب ہو سکتا تھا میں من ہی من میں اپنے آپ سے سوال کرنے لگا۔اتنی دیر میں امی بھی میرے کمرے میں آگئی ۔’’شاہدہ کو کیا ہو گیا ہے امی ‘‘میں نے فوراََ پوچھ لیا کیوں یہ اس قدرآسمان کی اور دیکھتی رہتی ہے گویا کچھ ڈھونڈ رہی ہو جیسے۔ امی نے میری اس بات پر لمبی آہ کھینچتے ہوئے کہا ’’بیٹا کچھ دُکھ ایسے بھی ہوتے ہیںجو انسان سے اس کا سب کچھ لے جاتے ہیں ،یہاں تک کہ اُس کے حواس بھی ۔انسان اپنے ارد گرد کے ماحول کی پرواہ کیے بغیر من میں جو آتا ہے کر بیٹھتا ہے ۔اس کے اندر کچھ دُکھ ایسے رچ بس گئے ہوتے ہیں کہ اسے خود بھی سمجھ نہیں آتا کہ کیا کرے،اُمید لگائے بیٹھے کہ انتظار کرے،کبھی وہ امیدیں لگائے بیٹھتا ہے تو وہ ٹوٹ جاتی ہیں اور کبھی انتظار کرتے کرتے وہ قبر میں اُتر جاتاہے ’’آخر ایسا بھی کیا ہوا ہے اس لڑکی کے ساتھ۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘میں نے مایوس لہجے میں امی سے پوچھ لیا ۔امی نے مجھے اپنے پاس بٹھاتے ہوئے کہا بیٹا دراصل شاہدہ کی شادی کچھ برس پہلے اپنے چچا زاد بھائی سے ہوئی تھی ۔دونوں بہت خوش تھے مگر پھر اچانک سب کچھ بدل کر رہ گیا ۔شاہدہ کا شوہر دھیرے دھیرے اُسے جہیز مانگنے لگا۔ یہاں شاہدہ کے گھر کی مالی حالت بھی اُتنی ٹھیک نہ تھی پھر بھی بیچاروں نے کئی بار پیسے جوڑ جوڑ کر اپنی بیٹی کا گھر بسایاتھا مگر آخر کار ایک دن اُن کی ہمت نے جواب دے دیا اور اس بار پیسے نہ پہنچنے پر داماد نے ان کی بیٹی کو میکے میں ہی لاکر چھوڑ دیا۔شاہدہ کی کئی بار منت سماجت کرنے کے باوجود بھی اُس کے شوہر نے اُس کی ایک نہ سنی۔بیچاری ٹوٹ کر رہ گئی اور کہتی بھی تو کس سے اور کیا کہتی۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہمارے پاس کہنے کو تو بہت کچھ ہوتا ہے لیکن ہم کہہ نہیں پاتے ہیں بس خاموش ہوجاتے ہیں ۔شاہدہ بھی دھیرے دھیرے خاموش رہنے لگی ۔کسی سے کوئی بات نہیں کیا کرتی مگر اندر ہی اندر اُسے اپنے میکے میں بیٹھنے کا غم کھائے جا رہا تھا اور اسی طرح دھیرے دھیرے وہ اپنا آدھے سے زائد ذہنی توازن کھو بیٹھی ۔وہ اب اکثر آسمانوں میں اُن بادلوں کو تکا کرتی ہے جو اُس کی زندگی ہی کی طرح بالکل کالے تھے ۔شاید وہ اُن غم زدہ نم آلود آنکھوں سے کسی کا انتظار کر رہی تھی۔۔۔۔ہاں مکافاتِ عمل۔۔۔ شاید حالات سے جھوجتے جھوجتے وہ اس مقام پر آکھڑی ہو گئی تھی جس میں انسان اپنا سب کچھ رب کے سپرد کر چکا ہوتا ہے ۔میں اکثر شاہدہ کو دیکھ کر اپنی امی جان سے کہا کرتا ’’امی جان !کیا مکافاتِ عمل واقعی ہوتا ہے ‘‘۔میری یہ باتیں سن کر امی اکثر یہی جواب دیا کرتی تھی کہ بیٹا ہم کسی کے ساتھ غلط کر کے ہر گز نتائج سے بچ نہیں سکتے ۔وہ آسمانوں میں بیٹھا رب سب کا حساب کتاب رکھتا ہے ۔مکافاتِ عمل تو اٹل ہے ۔ہاں!دیر سویر ہو سکتی ہے مگر ٹل نہیں سکتا ۔امی کی یہ باتیں سن کر میرے دل میں شاہدہ کے لیے ہمدردی اُبھرا کرتی ،اُمید جاگ جاتی تھی کہ ایک دن اس کے ساتھ انصاف ہو گا پھر کئی ماہ گزر گئے میرا تبادلہ شہر میں ہوگیا اور مجھے گاؤں چھوڑ کر شہر جانا پڑا ۔زندگی کافی مصروف ہوگئی پھر ایک روز گرمیوں کی چھٹیاں بتانے میں جب گھر آیا تو دیکھتا ہو ں کہ کایا ہی پلٹ گئی ہے ۔شاہدہ کے شوہر نے دوسری شادی تو کر لی تھی مگر شادی کے چند روز بعد ہی اُس کی دوسری بیوی نے اُس کا سب کچھ ہڑپ لیا ،یہاں تک کہ اُسے اپنے ہی گھر سے بے گھر کر دیا ۔وہ کئی سال پاگلوں کی طرح گلی کوچوں میں بھٹکتا پھرتا رہا اور اسی صدمے میں گرفتا ر ایک دن اُس نے خود کشی جیسا بڑا گناہ انجام دیا ۔کتنے افسوس کی بات ہے کہ کسی کے ساتھ بھی غلط کرتے وقت ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ جو ہم آج کر رہے ہیں وہ کل کو ہمارے ساتھ بھی تو ہوسکتا ہے ۔اُس دن کے بعد میں نے پھر کبھی امی سے مکافاتِ عمل کے ہونے پر شبہ نہیں جتایا کیوں کہ مجھے بھی اب یقین ہوگیا تھا کہ جیسی کرنی ویسی بھرنی اور جو بوئے گا وہ کاٹے گا کے مصداق ہر عمل کا نتیجہ سامنے آتا ہے، چاہے جلدی یا پھر دیر سے ۔
چندوسہ بارہ مولہ،موبائل نمبر؛9469447331