رابعہ فاطمہ
علاّمہ اقبالؒ کی شخصیت اور افکار سمجھنے اور اُن کی شاعری سے لطف اندوز ہونے کے لیے شاعرِمشرق کے اپنے عزیز و اقارب کو لکھے گئے مکاتیب کے ذخیرے سے استفادہ ضروری ہے، کیوں کہ بہ قول مولوی عبدالحق،’’ مکتوبِ دلّی خیالات و جذبات کا روزنامچہ اور اسرارِ حیات کا صحیفہ ہے، اس میں وہ صداقت اور خلوص ہے، جو دوسرے کلام میں نظر نہیں آتا۔ خطوط سے انسانی سیرت کا جیسا اندازہ ہوتا ہے، وہ کسی دوسرے ذریعے سے نہیں ہو سکتا۔‘‘اقبالؒ نے نہ صرف اردو بلکہ انگریزی، جرمن، فارسی اور عربی زبان میں بھی خطوط لکھے ۔ ان تقریباً ڈیڑھ ہزار خطوط کی سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ ان میں وہ خود اپنے خیالات کی وضاحت کرتے نظر آتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک خط میں وہ لکھتے ہیں کہ’’ میرا مقصد شاعرانہ نہیں بلکہ مذہبی اور اخلاقی ہے۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ اقبالؒ کو صرف ایک شاعر قراردینا دُرست نہیں، بلکہ وہ ایک ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے۔
اقبالؒ کے مکتوبات میں ہمیں وہ نظریات بھی ملتے ہیں، جو وہ شاعری کی زبان میں بیان نہیں کرسکے اور انہوں نے صرف مکتوبات کے ذریعے ہی ان نظریات کو زیرِ بحث لانا مناسب سمجھا۔ اس سلسلے میں رفیع الدّین ہاشمی لکھتے ہیں کہ’’ خطوط میں اقبال نے مختلف علمی، معاشی اور فلسفیانہ مباحث پر بحث کی اور مکتوبِ الیہ کے ساتھ قرآن و حدیث، فقہ اور تصوّف جیسے موضوعات پر تبادلۂ خیال کیا۔ انہوں نے بعض خطوط میں اپنے نظریات کی خود ہی وضاحت کی۔ نیز، اپنے اشعار و افکار کی تشریحات کرتے ہوئے بھی نظر آئے۔‘‘
عبدالسّلام ندوی کے مطابق’’ ڈاکٹر صاحب کے نزدیک تعلیم کا اصل مقصد خودی کی معرفت ہے۔‘‘ اقبالؒ خودی کو احترامِ انسانیت قرار دیتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ایک ایسے معاشرے کا خواب دیکھتے تھے، جس کا ہر فرد سیرت و کردار میں متوازن ہو۔اس ضمن میں مولوی عبدالحق لکھتے ہیں کہ’’دوسرے تمام تصوّرات کی طرح تدریس و تربیت کا مرکز بھی خودی ہے، جس کے استحکام میں اس اساسی عُنصر کو زیادہ دخل ہے۔ خودی جب آشکار ہوتی ہے، تو ایک زندہ و جاوداں پیکر کی صورت میں ڈھل جاتی ہے۔ خودی کی آگہی کے زیرِ سایہ تعلیم و تربیت کے سبب مثالی انسان بنتا ہے اور وہی انسان بعد میں تقویمِ زندگی کا محاسب کہلاتا ہے۔‘‘
اقبال کے بارے میں عموماً یہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ تصوّف کے خلاف تھے، جب کہ ان کے خطوط سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے جس ماحول میں آنکھ کھولی، وہ تصوّف کے گہرے رنگ میں رنگا ہوا تھا۔ چناں چہ اقبال 24فروری 1916ء کو اپنے وقت کے بلند پایہ عالم و صوفی شاہ پھلواری کو خط میں لکھتے ہیں کہ’’میرے والد کو فتوجات اور فصوص سے گہرا لگاؤ رہا۔ چار برس کی عُمر سے کانوں میں ان کی تعلیم پڑنی شروع ہوئی۔ برسوں تک ان دونوں کا درس ہمارے گھر میں رہا۔ گو کہ بچپن میں مُجھے ان کی سمجھ نہیں تھی، تاہم درس میں ہر روز شریک ہوتا۔‘‘
اسی طرح انہوں نے 25جولائی 1918ء کو اکبر الٰہ آبادی کے نام خط لکھا، جس میں انہوں نے آستانۂ محبوب الہٰی کی درگاہ پر حاضری کی تمنّا ظاہر کی۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’تعطیلات میں ان شاء اللہ دہلی جانے کا مقصد ہے کہ ایک مُدّت سے آستانۂ حضرت محبوب الہٰی پر حاضر ہونے کا ارادہ کر رہا ہوں۔ کیا عجب، ان گرما کی تعطیلات میں اللہ اس ارادے کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔‘‘
تاہم، اقبالؒ اس نام نہاد تصوّف کے خلاف تھے، جو بے عملی، ترکِ دُنیا اور رہبانیت اختیار کرنے کی ترغیب دیتا ہے، کیوں کہ اسلام اپنے ماننے والوں کو رہبانیت سے بچنے کا حُکم دیتا ہے۔ اسی بنیاد پر اقبالؒ نے اس نام نہاد تصوّف پر شدید تنقید کی ہے۔ اس تنقید کا اندازہ خواجہ حسن نظامی کے نام لکھے گئے خط سے لگایا جا سکتا ہے۔
اس مکتوب میں اقبالؒ لکھتے ہیں کہ’’رہبانیت عیسائی مذہب کے ساتھ خاص نہیں ہے، بلکہ ہر قوم میں پیدا ہوتی ہے اور اس نے ہر شریعت و قانون کا مقابلہ کیا ہے۔ اسلام اسی کے خلاف ایک صدائے احتجاج ہے۔ تصوّف نے، جو مسلمانوں میں پیدا ہوا (اور اس تصوّف سے میری مُراد ایرانی تصوّف ہے) ہر قوم کی رہبانیت سے فائدہ اٹھایا اور ہر راہبی تعلیم کو جذب کرنے کی کوشش کی۔ نیزاس نے قرامطی تحریک سے بھی فائدہ اٹھایا، جس کا مقصد قیودِ شرعیۂ اسلامیہ کو فنا کرنا تھا۔‘‘
اقبال ؒکا ہر فلسفہ فکرِ اسلامی کی بنیادوں پر استوار ہے۔ وہ خواجہ غلام السیّدین کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں کہ’’علم سے میری مُراد وہ علم ہے، جس کا مدار حواس ہو۔ عام طور پر مَیں نے علم کا لفظ انہی معنوں میں استعمال کیا ہے۔ اس علم سے طبعی قوّت ہاتھ آتی ہے، جو دِین کے ماتحت ہو۔ اگر علم ،دِین کے ماتحت نہ رہے، تو وہ محض شیطانیت ہے اور مسلمان کے لیے لازم ہے کہ وہ علم کو مسلمان کرے۔‘‘؎
دِیں ہاتھ سے دے کر اگر آزاد ہو ملّت
ہے ایسی تجارت میں مسلماں کا خسارہ
شاعرِ مشرق کے نزدیک اسلام ایک خالص تعلیمی تحریک ہے، جس کے ہر حُکم اور ثقافت سے درس و تدریس اور تعلیم و تربیت چھلکتی ہے۔ اقبال چاہتے تھے کہ مسلمان دینی تعلیم کے ساتھ جدید عصری علوم سے بھی بہرہ وَر ہوں۔ اس ضمن میں وہ ایک مکتوب میں لکھتے ہیں کہ النّدوہ، علی گڑھ کالج، دارالعلوم دیوبند اور اس قسم کے دوسرے مدارس، جو الگ الگ کام کر رہے ہیں، اس بڑی ضرورت کو رفع نہیں کرسکتے۔ ان تعلیمی قوّتوں کو یک جا کرکے وسیع تر اغراض کا مرکزی دارالعلم بنانا ہو گا، جہاں نہ صرف فردِ ملّت کی قابلیتیں نشوونما پا سکیں بلکہ تہذیب کا وہ سانچا تیار ہو سکے کہ جس میں موجودہ زمانے کے ہندوستانی مسلمان ڈھل جائیں، تاکہ ایک جامع و متوازن تعلیم و تربیت مرتّب ہوسکے۔‘‘؎
قوم مذہب سے ہے، مذہب جو نہیں، تم بھی نہیں
جذب باہم جو نہیں، محفل انجم بھی نہیں۔