چوٹیاں کاٹنے کے واقعات، جو صریحی طور پر اب ایک مہم کی صورت اختیار کرچکے ہیں، نے کشمیر کے طول و عرض میں ایک ایسی دہشت پھیلا دی ہے جس سے سماجی زندگی کے تانے بانے ہلنے لگے ہیں۔ شہر و قصبہ جات میں تو اندھیرا ہوتے ہی کالونیوں اور اندرونی علاقوں میں لوگوں کی آمد رفت متاثر ہونے لگی ہے جبکہ گائوں دیہات میں دن کے اُجالے میں بھی عبور و مرور سے لوگ گھبراہٹ محسوس کررہے ہیں۔ خاص طور پر خواتین کا طبقہ زبردست دہشت کا شکار ہوا ہے اور وہ تنہا گھروں سے باہر آنے میں زبردست خوف محسوس کرتی ہیں ۔ اور تو اور گھروں کے اندر اُنہیں تنہا رکھنے سے بھی لوگ خوف کھانے لگے ہیں، کیونکہ کئی ایسے واقعات پیش آئے ہیں، جب گھروں کے اندر موجود تنہا خواتین کو اس شیطانی مہم کا شکار بنایا گیا ہے۔ آج صبح اور سہ پہر کے وقت یہ مناظر عام دکھائی دیتے ہیں جب اسکول اور کالج جاتے وقت یا پھر وہاں سے لوٹتے وقت طالبات کی ہمراہی کے لئے کوئی مرد ضرور ساتھ ہوتا ہے۔ اس طرح مردوں کا کام کاج بھی بُری طرح متاثر ہورہا ہے۔ پرچون تجارت پر بھی آہستہ آہستہ منفی اثرات سے ثبت ہونا شروع ہوگئے ہیں، کیونکہ اُن کے خریداروں، جن میں خواتین کی اچھی خاصی تعداد شامل ہوتی تھی، کی تعداد ہر گزرنے والے دن کے ساتھ گررہی ہے۔ علاوہ ازیں آبادی کا ایک حصہ جس نفسیاتی دبائو کا شکار ہورہاہے، وہ کسی طور پر کم نقصان دہ نہیں۔ بہ ایں ہمہ یہ کہنا غالباً غلط نہ ہوگا کہ چوٹیاں کاٹنے کی اس خوفناک مہم نے سماج کے تانے بانے ہلا کر رکھ دیئے ہیں، لیکن اس سے زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ حکومت اپنے وسیع انتظامی ڈھانچے کے باوجود اس صورتحال کی تہہ تک پہنچنے میں بُری طرح ناکام ہوئی ہے۔ اس مہم کے پس پردہ عناصر اور عملکاروں تک پہنچنا تو دور کی بات ہے، وہ اس صورت کا فہم واردات کرنے سے بھی قاصر نظر آتی ہے، کیونکہ سیاسی اور انتظامی سطح پر حکومتی اداروں کے ذمہ داروں کی جانب سے جو آراء اور بیانات سامنے آرہے ہیں، وہ سماجی حقائق سے یا تو میل نہیں کھاتے یا پھر موضوع کے کسی ایک پہلو کا احاطہ کرتے ہیں۔ کشمیر کے طول و عرض اور جموں کے مختلف مقامات پر پیش آئے درجنوں ایسے واقعات پر پولیس کی جانب سے ایف آئی آر تو درج ہوئے ہیں، لیکن ابھی تک کوئی گرفتاری عمل میں آنا ہنوز باقی ہے، البتہ موئے تراشی کی شک میں پکڑے گئے کئی شہریوں کا زد و کوب کرنے کی پاداش میں کئی افراد کی نشاندہی کرکے انکے خلاف معاملات درج کئے گئے ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ بے گناہ شہریوں کو نشانہ بناکر زد و کوب کرنا ایک سنگین جرم ہے اور ایسے معاملات میں پولیس کی مداخلت کا قانونی جواز بنتا ہے، لیکن جب ایک ہی معاملے کے کئی پہلو اُبھر کر سامنے آئیں لیکن انتظامیہ کی طرف سے ایک پہلو کا احاطہ کرنے اور باقی پہلوئوں کا احاطہ کرنے میں ناکامی کی صورت سامنے آئے تو انتشار اور بدگمانی کی صورتحال پیدا ہونا ایک بدیہی امر ہے۔ اب سیکورٹی ایجنسیوں اور مزاحمتی خیمہ کی جانب سے کھلم کھلا ایک دوسرے پر الزام تراشیاں ہونا شروع ہوگئی ہے، جو عوام کے ذہنوں میں پیدا شدہ انتشار کو مزید مستحکم کررہا ہے۔اس ساری صورتحال میں مجموعی طور پر کشمیر کے سماج کی بنیادیں ہل رہی ہیں، جس میں باہمی اعتبار اور اعتماد کا عمل بُری طرح متاثر ہورہا ہے۔ یہ ایک مانی ہوئی حقیقت ہے کہ جس سماج کے اندر اعتماد و اعتبار کا فقدان پیدا ہوجائے، اُس کی ترقی کا عمل نہ صرف رک جاتا ہے بلکہ اسکا شیرازہ بکھر جانے کا شدید اندیشہ لاحق ہوتا ہے۔ حکومت، جس سے عوام کی اُمیدیں وابستہ ہیں، کو اس صورتحال پر قابو پانے کے لئے ہر زاویئے سے تحقیق و تفتیش کے عمل میں تیزی لاکر عوام کے اُس اعتماد کو بحال کرنے کو مقدم ٹھہرانا چاہئے، جو سماجی ڈھانچے کے استحکام کے لئے بنیادی عنصر کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس حوالے سے ہورہی مسلسل تاخیر بالآخر حکومت کو عوامی کٹہرے میں کھڑا کرنے کا مؤجب بن سکتی ہے۔