مو لا نا حسن محمد مر حو م

Kashmir Uzma News Desk
16 Min Read
مو لا نا حسن محمد راجو ری قصبہ سے پندرہ کلو میٹر جا نب مشر ق پھوالگاہ نا می گائو ں کے ایک غریب گھرانے میں فضل دین کھٹانہ کے گھر ۱۹۱۶ء؁ میں پیدا ہو ئے۔ ابتدائی مذہبی تعلیم گھر پر ہو ئی اور پھر اس خطہ کی مشہو ر دینی و روحانی شخصیت مو لا نا محمد عثما ن ترالوی کی درس گا ہ میں پہنچ کر دینیات اور عر بی و فارسی کی کچھ کتب پڑھیں بعد ازاں مزید حصول علم کی غر ض سے پنجاب کی طرف رخت سفر باندھا اور گجرانوالہ شہر کی دینی درس گاہوں اور علما ء سے علمی استفادہ کیا چونکہ ان دنو ں بر صغیر میں شہر لا ہو ر علم و ادب اور تر قی تہذیب و ثقافت کا گہوارہ ہوا کر تا تھا جس کی وجہ سے ہندوستان کے دور دراز علا قوں سے بڑی تعداد میں لو گ حصول علم و ادب کی خاطر اس شہر کا رخ کر تے تھے چنا نچہ شہر لا ہو ر کی ان ہی علمی و تہذیبی اور ادبی قدروں نے خطہ راجو ری کے اس ہو نہا ر نو جوان کو اپنی طر ف کھینچا اور اس نے گو جرانوالہ سے لا ہو ر پہنچ کر اس شہر کی مشہو ر دینی درسگاہ جا معہ اشرفیہ میں داخلہ لے کر اپنی تعلیم کی تکمیل کی اور قرآن کی تفسیر اس زمانہ کے مشہور مفسر قرآن مو لا نا احمد علی لا ہو ری اور شیخ الحدیث مو لا نا محمد چراغ سے پڑھی ۱۹۴۷ء؁ سے قبل آپ بیس سال تک لاہور شہر میں مقیم رہے جس کی وجہ سے لا ہو ر کی خالص پنجابی زبا ن اور اس کا خو بصورت لہجہ آپ کی ما دری زبا ن بن چکا تھا وہ زند گی بھر اظہا ر رائے کی خاطر ٹھیٹھ پنجابی زبا ن بو لتے تھے تعلیم سے فراغت کے بعد آپ نے لا ہو ر ہی میں کا روبار شروع کر دیا لا ہو ر کے رہا ئش اور کا روبا ری زند گی نے آپ کو ایک منجھا ہوا اور تجر بہ کار کا رو با ری تا جر بنا دیا قیا م لا ہور کے دوران آپ کو غیر منقسم ہندوستان کے چوٹی کے علما ء و سیا سی قا ئدین سے ملنے اور ان کی مجلسوں میں بیٹھنے اور ان سے استفادہ کر نے کا مو قع ملا جن میں علا مہ اقبال با با ئے صحافت مو لا نا ظفر علی خان ،علا مہ تاجور نجیب آبادی ،قائد اعظم محمد علی جنا ح ،چو ہد ری محمد علی ،آغا شورش کا شمیر ی ،جواہر لا ل نہر و،لا لہ دیوان چند مفتون اور مو لا نا سید عطا ء اللہ شاہ بخاری وغیر ہ خاص طور پر قا بل ذکر ہیں مو لا نا حسن محمد مر حوم نے لا ہور میں رہ کر بر صغیر میں انگریزوں کا عروج و زوال ،ہندوستان کی تقسیم اور مہا جر قا فلوں کی نقل مکا نی و اتھل پتھل کو آنکھو ں سے دیکھا تھا مشر قی ہندوستان اور متحدہ پنجا ب میں ان دنو ں انگریزوں کے خلا ف تحریک آزادی کا بڑا مر کز شہر لا ہو ر اور اس کا تا ریخی مو چی دروازہ ہوا کر تا تھا جہا ں آئے دن جلسے جلو س اور سیا سی سر گر میا ں جا ری رہتی تھیں ان حالات و واقعات نے مو لا نا حسن محمد کی فکر و شخصیت پر گہر ے نقو ش ثبت کئے وہ ایک ٹھو س قسم کے سیا سی کا رکن ، کا میا ب تاجر عالم دین ،داعی حق اور خطہ پیر پنچال کے مسلما نو ں کے ہمدردو خیر خواہ بن کر ابھر ے مو لا نا حسن محمد مر حو م نے ۲۳ما رچ ۱۹۴۱ء؁ کو مینا ر پاکستان کی جگہ منعقد ہو نے والے مطالبہ پا کستان کے اس تاریخی اجلاس میں بھی شر کت کی اور قائد اعظم محمد علی جنا ح ومسلم لیگ کے چو ٹی کے قائدین کی تقاریر سنیں جن میں تاریخی قرارداد پا کستان منظور ہو ئی تھی مو لا نا حسن محمد فکر ی و نظر یا تی طور پر ایک متبحر و راسخ العقیدہ عالم دین دو قو می نظریہ کے حامل اور اپنے وطن خطہ پیر پنچال کے مسلما نو ں کے حقیقی خیر خواہ و مصلح اور ڈو گرہ راج کے سخت نا قد تھے قیا م پا کستان کے بعد جمو ں و کشمیر کے محاذ جنگ پر راجوری خطہ میں انہو ں نے تحریک آزادی کو منطقی انجا م تک پہو نچا نے کے لئے راجو ری کے مقامی زعما ء اور مجا ہدین کے قا فلو ں کے ہمراہ بھر پور رول اداکیا ان کے ہم عصروں میں   را جو ری کے مو لا نا محمد اسماعیل ذبیح ،مر زا فقیر محمد راجو روی ،شیخ عبدالعزیز علا ئی ،چو ہدری محمد شفیع کھٹانہ ،چو ہدری سخی محمد عوانہ ، چو ہد ری شیر محمد چو ہا ن ،رئیس ڈھانگری ،اور مو لا نا صلا ح محمد وغیر ہ تھے تیر ہ نو مبر ۱۹۴۷ء؁ کو راجو ری قصبہ کی فتح کے بعد انہو ں نے مر زا فقیر محمد راجو روی کی ٹیم میں راجو ری قصبہ کے غیر مسلم پنا ہ گزینوں کی کفالت اور دیکھ ریکھ میں اہم رول ادا کیا تاہم ۱۳ اپریل ۱۹۴۸ء؁ کو سقو ط راجو ری کے بعد آپ کو بھی دیگر ہزاروں مہا جرین کے ساتھ کنٹرول لا ئن کے اس پار ہجر ت کر نا پڑی اپریل ۱۹۴۸ء؁ سے ۱۹۵۶ء؁ تک آپ کنٹرول لائن کے اس پار جہلم ،میر پور ،اور کھو ئی رٹہ وغیر ہ مین ٹرانسپورٹ کے کا رو با ر کے ساتھ منسلک رہے ۔
۱۹۴۷؁ء سے قبل ان کی جمو ں کے اردو بازار (موجودہ راجندر بازار)اور سرینگر کے حضوری باغ میں دکانیں ہوا کر تی تھیں جن پر ان کے ملا زم کا م کر تے تھے اور وہ خو د لا ہور سے ان دکا نو ں پر ما ل سپلا ئی کر تے تھے جمو ں اور سرینگر کا یہ سارا کا رو با ر ۱۹۴۷ء؁ کے حالات کی نذر ہو گیا مو لا نا مجھے بتا یا کر تے تھے کہ قیام پا کستان کے بعد اس خطہ کے مہا جرین نے اپنی منقولہ و غیر منقولہ جا ئدادوں بڑے بڑے کلیم حکومت پا کستان سے وصول کئے جو زیا دہ تر فر ضی تھے چنا نچہ بعض آباد کار کمیٹی کے لو گو ں نے کئی دفعہ مجھے بھی سرینگر اور جمو ں کی دکا نو ں کا کلیم حاصل کر نے تر غیب دی مگر چو نکہ میں اپنے وطن راجوری واپسی کا عہد کر چکا تھا اس لئے میں نے حکومت پا کستان سے کلیم وصول کر کے واپس راجو ری آنا خلا ف قا نو ن و دیا نت تصور کیا اس لئے مطالبہ کے با وجود میر ے ضمیر نے یہ پیشکش قبول نہ کی مو لا نا حسن محمد جہلم و میر پو ر سے کھو ئی رٹہ اور پھر وہا ں سے کنٹرول لائن کے قریب بڈالی گالہ مقام پر کچھ عر صہ مقیم رہے یہاں ان کے ساتھ اس خطہ کی مشہو ر شخصیت اور حریت پسند مو لا نا اسماعیل ذبیح صاحب بھی تھے جن کا پروگرام بھی راجو ری واپسی کا تھا لیکن بوجہ انہو ں نے اپنا ارادہ بدل دیا اور وہ واپس پا کستان جا کر ایبٹ آباد کے رہا ئشی بن گئے جب کہ مو لا نا حسن محمد مر حوم ۱۹۵۶ء؁ میں واپس راجو ری آگئے ۔
مو لا نا راجوری واپس آکر اپنے گا ئو ں کے نواح میں راجوری قصبہ سے پانچ کلو میٹر کے فاصلہ پر رہتال نا می گائو ں میں نہا یت بے سروسامانی کے عالم میں آکر مقیم ہوئے اور کنگڑھ نا م کے ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر معمولی کا رو با ر شروع کیا جو چند سالو ں میں ایک بڑی کا روبا ری منڈی کی شکل اختیار کر گیا اور مو لا نا کنگڑھ والے مو لوی صاحب کے نا م سے مشہو ر ہو گئے ان دنو ں رہتال نا می یہ سارا گائو ں سو دی لین دین کے عو ض راجو ری قصبہ کے صراف گھرانے کی ملکیت تھا جسے امر صراف نا می شخص کنٹرول کر رہا تھا اور اس علا قہ کے سارے مسلما ن کئی نسلو ں سے صراف گھرانے کے کا شت کا ر اور ان کے سو دی نظام میں پھنسے نہا یت غر بت اور مفلو ک الحالی کی زند گی بسر کر رہے تھے چو نکہ مو لا نا حسن محمد مر حوم ایک لمبے عر صہ تک لا ہو ر میں مقیم رہے اور بڑے جہا ندیدہ شخص تھے اس لئے انہو ں نے اپنے تجر بات سے فائدہ اٹھاتے ہو ئے حکو مت کے ذریعہ یہا ں کواپریٹیو بینک کی ایک شا خ حاصل کی اور اس بستی کے علا وہ دیگر ملحقہ دیہا ت کے مسلما نو ں کو بھی بینک سے قر ض دلوایا جس سے ان لو گو ں نے صراف گھرانے کو رقم ادا کر کے زمینوں کے ما لکا نہ حقوق حاصل کئے اور مہا جر وں کی بیگار اورسود در سود کی دائمی لعنت سے آزادی حاصل کی مو لا نا مر حوم نے اس خطہ کے لو گو ں کو زمینوں اور جا ئدادوں کا ما لک بنا کر با عزت جینے اور اپنی ما لی حالت درست کر نے کے گر سکھائے بلکہ یہا ں ایک مسجد تعمیر کر کے دعوت و تبلیغ اور تعلیم و تر بیت کے ذریعہ اس علا قہ کے مسلما نو ں میں دینی فہم اور بصیرت بھی پیدا کی جو ان کی بہت بڑی دین اور صد قہ جا ریہ ہے جس کے پھل پھو لو ں سے اس علا قہ کے مسلما ن آج بھی بد ستور فیض حاصل کر رہے ہیں وہ بحیثیت ایک عالم دین تاجر سیا سی و سما جی کا رکن و مصلح اور پختہ سوچ کے سلجھے ہو ئے دانا آدمی تھے قرآن و حدیث اسلامی علوم و فقہ کے علا وہ تاریخ عالم پر ان کی بڑی گہر ی اور دقیق نظر تھی تاریخ کے مو ضوع پر ان کی ذاتی لائبریر ی میں بہت ہی نا در و نا یا ب کتب کا ایک برا ذخیرہ مو جو د تھا جس سے ان کے تبحر علمی وبلندی فکر کا پتہ چلتا ہے وہ ایک با عمل اور منجھے ہو ئے عالم دین اور اپنے عہد میں راجو ری خطہ کے مسلما نو ں میں ایک بڑ ے کا رو با ری تا جر تھے انہو ں نے کبھی بھی دین کو ذریعہ معا ش نہیں بنا یا بلکہ اپنے کا رو با ری مصروفیا ت کے ساتھ رضا کا رانہ طور پر اپنی بستی اور ارد گر د کے لو گوں کے بچو ں کو دینی تعلیم وتر بیت سے آراستہ کیا وہ ہر قسم کی بد عات اور مر وجہ دینی رسم و رواج کے سخت خلا ف تھے اس کے بر عکس انہو ں نے قرآ ن و سنت کے مطابق اس علا قہ کے مسلما نو ں کے عقائد و نظریا ت کو درست کر کے زما نہ جا ہلیت کے ہندوانہ رسم و رواج کا خاتمہ کیا ،مسلکی طور پر وہ کھلے دل و دما غ کے آدمی تھے اور ہر مکتبہ فکر کے علما ء کے قدر دان مو لا نا حسن محمد مر حو م کی اہلیہ مر حومہ آمنہ بی بی بھی بڑی نیک سیرت صوم و صلوۃ کی پا بند سخی اور دریا دل خاتو ن تھیں۔ انہو ں نے اپنے والدین کی متروکہ زمین مو ضع کو ٹ دھڑہ میں اپنے زیورات فروخت کر کے ایک مسجد تعمیر کر وائی جو آج ایک بڑی جا مع مسجد اور اس علا قہ کا ایک اہم دعوتی مر کز ہے جو مو لا نا حسن محمد مر حوم اور ان کی اہلیہ مر حومہ کے لئے تا قیا مت صد قہ ٔجا ریہ ہے ۔مو لا نا مر حوم کو اپنے وطن اور خاص طور پر وادی کشمیر کے ساتھ گہر ی عقیدت و محبت تھی اور یہی محبت انہیں زند گی کے آخری دنو ں میں سرینگر لے گئی اور ۹ ؍جو ن ۲۰۰۶ء؁ کو حضرت بل کی مسجد میں نما ز جمعہ ادا کرنے کے بعد ڈل جھیل کے کنا رے نسیم با غ میں بیٹھے بیٹھے اپنے رب کریم سے جا ملے ۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔
 نوٹ :مضمون نگار چیر مین الہدی ٹر سٹ راجوری ہیں 
رابطہ نمبر 9697808891

Share This Article
Leave a Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *